:سوال
دو تین آدمی مسجد میں آئے تو امام نماز تراویح میں مصروف تھا، کیا یہ آنے والے اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے جماعت کرائیں یا علیحدہ علیحدہ پڑھیں اور اس کے بعد تراویح کی جماعت میں شامل ہوں؟ اور کیا یہ لوگ وتر امام کے ساتھ جماعت سے ادا کریں یا اس امام کی جماعت کے ساتھ فرض ادا نہ کرنے کی وجہ سے وتر علیحدہ پڑھیں؟
:جواب
تراویح کی جماعت فرض کی جماعت کے لئے مانع نہیں ہے کیونکہ دوسری جماعت کے لئے وہ موجودہ جماعت مانع ہوتی ہے جو کہ تمام آنے والوں کے لئے اپنے اندر داخل ہونے کی داعی ہو ، جبکہ بعد میں آنے والے ان لوگوں کو جنہوں نے فرض نماز نہیں پڑھی کے لئے یہ موجودہ جماعت تراویح راعی نہیں ہے کہ اس میں شامل ہوں، کیونکہ فرض ادا کرنے سے قبل تراویح کا پڑھنا صحیح مذہب میں باطل ہے، اسی بناء پر جامع الرموز میں کہ” اذا دخل واحد في المسجد و الامام في التراويح يصلى فرض العشاء اولا ثم يـ م بنابعه ” ترجمہ: جب کوئی ایک شخص جماعت تراویح ہوتے وقت آئے تو اس کو پہلے عشا کے فرض پڑھنے ہوں گے اور اس کے بعد تراویح کی جماعت میں شریک ہو۔
(جامع الرموز ،ج 1 ،ص 214 ،مکتبہ اسلامیہ گنبد فاموس،ایران)
مزید پڑھیں:کیا نماز غوثیہ واقعی غوث اعظم سے مروی ہے؟
پس بعد میں آنے والے لوگ جب اس بات کے پابند ہیں کہ وہ پہلے فرض ادا کریں اور بعد میں تراویح پڑھیں تو شرعاً ان کو فرض کی ادائیگی جماعت کرانے میں کیا مانع ہے خصوصاً جبکہ امام تراویح پڑھاتے ہوئے محراب میں ہے تو بعد میں آنے والے اپنی جماعت کو محراب سے ہٹ کر کرا ئیں گے جس سے پہلی جماعت کی ہئیت تبدیل ہو جائے گی اور دوسری جماعت کی کراہت ختم ہو جائے گی ۔۔ ہاں ممکن حد تک ان کو چاہئے کہ تراویح کی جماعت سے دور اپنی جماعت کریں تا کہ آپس میں قرآت اور افعال میں اشتباہ نہ پیدا ہو اور اطمینان قلبی سے نماز ادا ہو سکے، نیز تراویح کے امام جو کہ تلاوت میں مصروف ہے کو اشتباہ سے بچایا جا سکے۔ فقہ سے مس رکھنے والے کو یہ تمام معاملہ معلوم ہے ۔ اور پھر جو شخص عشاء کے فرض جماعت سے ادا کر چکا ہو خواہ اپنی جماعت کرائی ہو یا کسی اور امام یا اس تراویح والے کے ساتھ جماعت میں شامل ہوا ہو اس کو تر اویح اور وتر کی جماعت میں شریک ہونا جائز ہے، ہاں جس نے فرض بغیر جماعت اکیلے پڑھے ہوں اس کو وترا کیلئے پڑھنے چاہئیں۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 544