:سوال
غیر مقلدین نے ہیں تراویح کو بدعت عمر ( رضی اللہ تعالی عنہ ) قرار دیتے ہوئے ان میں تخفیف کر کے گیارہ کر لی ہیں ، یہ جائز ہے یا نہیں؟
: جواب
تراویح سنت مؤکدہ ہے محققین کے نزدیک سنت مؤکدہ کا تارک گنہ گار ہے خصوصاً جب ترک کی عادت بنائے، تراویح کی تعداد جمہور امت کے ہاں بیس ہی ہے۔ ایک روایت کے مطابق امام مالک کے ہاں ان کی تعداد چھتیس ہے۔ در مختار میں ہے” التراويح سنة مؤكدة لمواظبة الخلفاء الراشدين وهي عشرون ركعة ”ترجمہ: تراویح سنت موکده ہیں کیونکہ خلفا ء راشدین نے اس پر دوام فرمایا اور وہ میں رکعات ہیں۔
پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی سنت رسالت مآب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ہی سنت ہے کیونکہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ہمیں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہا کی اقتدا کا حکم دیا ہے اور خلفاء راشدین کی اتباع سنت میں تاکید کامل فرمائی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا ” عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين عضوا عليها بالنواجذ ” ترجمہ: تم پر میری اور خلفائے راشدین کی سنت لازم ہے اسے دانتوں سے اچھی طرح مضبوطی کے ساتھ تھام لو۔
(سنن ابوداؤ د،ج2،ص 279، آفتاب عالم پر یس، لاہور )
نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا ”اقتدوا بالذين من بعدي من اصحابی ابی بکر و عمر ” ترجمہ: لوگو! تم میرے بعد میرے صحابہ ابو بکر و عمر کی اقتدا کرنا۔
(جامع التر مذی ، ج 2 ،ص 207، مطبوعہ، امین کمپنی ، کراچی)
یہ بیباک لوگ جو اہل تشیع کی نقل کرتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی سنت کو بدعت عمری کہتے ہیں اور ان میں سے کچھ دریدہ دہنی کرنے والے حضرت کے عمل کو گمراہی کہتے ہیں اس کا حساب و کتاب بروز جزا انہیں دینا ہوگا۔( وَ سَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ) عنقریب ظالم جان لیں گے کہ وہ کسی طرف پلٹا کھائیں گے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 457