:سوال
بکر نے مسجد میں مقرر شده امام زید سے زبردستی امامت چھین لی اور خود امام بن بیٹھا حالانکہ زید میں کوئی خامی نہیں، اور انتظامیہ مسجد اور دیگر لوگ بکر کے پیچھے نماز پڑھنے کو نا پسند کرتے ہیں درج ذیل وجوہات کی وجہ سے
(1)
کہ بکر بعض اوقات رقص طوائف دیکھ لیتا ہے۔
(۲)
کفار و مشرکین کے میلوں ٹھیلوں اور دیوالی کی شب جو ہنود میں صورت لچھمن کی ہوتی ہے اور خبائث دیوتاؤں کی پوجا کی جاتی ہے شریک ہو کر سب کے ساتھ مہورت کا روپیہ چڑھاتا ہے۔
(۳)
محفل میلاد نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو اور قیام کو بدعت سیئہ بتلاتا ہے او گیارہویں شریف کی محفل کرنے والے کو بدعتی اور گنہگار کہتا ہے اور شیرنی محفل میلاد کو برا جانتا جانتا ہے ۔
(۴)
شرفاکی تو ہین اور غیبت کو فخر سمجھتا ہے۔
بکر کے پیچھے نماز پڑھنے یا نہ پڑھنے میں کیا حرج ہے؟
: جواب
صورت مستفسرہ ( پوچھی گئی صورت) میں بکر کا فاسق فاجر مرتکب کبائر بدعتی گمراہ خائب و خاسر ہونا تو بدابة ظاہر اور اگر لچھمن کو روپیہ معاذ اللہ بطور عبادت بھینٹ چڑھایا ہے تو قطعا یقیناً مرتد کافر اور اس فعل ملعون کے بدترین فسق و فجور قریب بکفر ہونے میں تو کلام ہی نہیں، بہر حال اُس کے پیچھے نماز نہ پڑھنے میں کیا حرج ہوتا بلکہ اقتدا میں حرج اور سخت حرج ہے جو اسے امام کرے گا گنہگار ہو گا مسلمان اس فاسق بد دین کے پیچھے نماز ہرگز نہ پڑھیں جہاں تک قدرت ہوا سے امامت سے دفع کریں قدرت نہ پائیں تو اپنی جماعت جدا کریں اور جبکہ امام معین یعنی زید اور عامہ اہل مسجد انھیں کے ساتھ ہیں تو جماعت اولی انھیں کی جماعت ہوگی اگر چہ وہ پہلے پڑھ جائے بلکہ جبکہ اس کے اسلام میں شک ہے تو انھیں بدرجہ اولی جائز ہے
وہ جس وقت امامت کر رہا ہو اسی وقت مسجد میں یہ اپنی جماعت قائم کریں اور اگر یہ ایسا کریں تو اس جماعت کے مقتدیوں کو چاہنے فورانیت توڑ کر اس میں آملیں اگر ایسا نہ کریں گے تو انھیں اپنی نماز پھیرنی ہوگی نوں ہی آج تک جتنی نمازین لوگوں نے دانستہ خواہ نادانستہ اس کے پیچھے پڑھی ہیں سب پھیریں، اور اگر مسلمان نہ اسے امامت سے دفع کر سکتے ہیں نہ اس مسجد میں ان اپنی جماعت نادانستہ اس کے پیچھے پڑھی ہیں سب پھیریں، اس سے پہلے یا ساتھ یا بعد کر سکتے ہیں تو انھیں روا ہے کہ اس مسجد میں نماز نہ پڑھیں دوسری مسجد میں جا کر شریک جماعت ہوں۔ بکر جیسا کہ اپنے دیگر اقوال وافعال مذکورہ سوال کے باعث خاطی وبزہ کار اور اس بھینٹ کے سبب بدترین و ناپاک ترین اشرار ، یوں ہی اس امامت میں بھی کہ بنا راضی مقتدیان ہے مخالف شرع و گنہگار ہے۔
حدیث پاک میں ہے حضور سید عالم صلى الله تعالی علیہ و سلم فرماتے ہیں ” ثلثة لعنهم الله من تقدم قوما وهم له كارهون وامرأة بأنت وزوجها عليها ساخط ورجل سمع حى على الصلاة حي على الفلاح فلم يجب” تین شخص ہیں جن پر اللہ تعالی کی لعنت ہے ایک وہ کہ لوگوں کی امامت کو کھڑا ہو جائے اور وہ اس سے ناخوش ہوں ، دوسری وہ عورت کہ رات گزارے اس حالت میں کہ اس کا شوہر اس سے ناراض ہے، تیسرا وہ شخص کہ حی علی الصلوة و حی علی الفلاح سنے اور نماز کو حاضر نہ ہو
(الز واجر عن اقتراف الکبائر بحوالہ مستدرک، ج 1، ص 239 دار الفکر، بیرات )
خصوصاً ایسی امامت تو اور بھی سخت ہے کہ بلا وجہ شرعی امام متعین کا منصب چھین کر جبر الوگوں کی امامت کرے ائمہ دین نے اسے کبیرہ گناہوں میں شمار فرمایا۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 419