:سوال
امام شافعی علیہ الرحمہ قرآت خلف الامام کے قائل ہیں ، ان کے دلائل کا جواب کیا ہے؟
:جواب
باقی رہے تمسکات شافعیہ ان میں عمدہ ترین دلائل جسے اُن کا مدار مذہب کہنا چاہئے حدیث صحیحین ہے یعنی ”لا صلوة الا بفاتحة الكتاب ” کوئی نماز نہیں ہوتی بے فاتحہ کے۔
جواب اس حدیث سے چند طور پر ہے یہاں اسی قدر کافی کہ یہ حدیث تمھارے مفید نہ ہمارے مضر ، ہم خود مانتے ہیں کہ کوئی نماز ذات رکوع وسجود بے فاتحہ کے تمام نہیں امام کی ہو خواہ ماموم کی مگر مقتدی کے حق میں خود رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے لئے امام کی قرآت کافی اور امام کا پڑھنا بعینہ اس کا پڑھنا ہے۔ کما مر سابقا ( جیسا کہ پیچھے گزر چکا) پس خلاف ارشاد حضور والا تم نے کہاں سے نکال لیا کہ مقتدی جب تک خودنہ پڑھے گا نماز اس کی بے فاتحہ رہے گی اور فاسد ہوجائےگی۔
:دوسری دلیل
حديث مسلم ” من صلي صلاة لم يقرأفيها بام القرآن فهي خداج هي خداج هي خداج ” حاصل یہ کہ جس نے کوئی نماز بے فاتحہ پڑھی وہ ناقص ہے ناقص ہے ناقص ہے۔
اس کا جواب بھی بعینہ مثل اول کے ہے نماز فاتحہ کا نقصان مسلم اور قرآت امام قرآت ماموم سے مغنی خلاصہ یہ کہ اس قسم کی احادیث اگر چہ لاکھوں ہوں تمھیں اس وقت بکار آمد ہوں گی جب ہمارے طور پر نماز مقتدی بے ام الکتاب رہتی ہو وهو ممنوع (اور یہ ممنوع ہے)۔
مزید پڑھیں:نماز میں قرآت کرتے ہوئے وقف نہ کیا تو کیا حکم ہے؟
:تیسری دلیل
حدیث عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ” لا تفعلوا الابام القرآن” امام کے پیچھے اور کچھ نہ پڑھو سوائےفاتحہ ۔
اولا یہ حدیث ضعیف ہے اُن صحیح حدیثوں کی جو ہم نے مسلم اور ترمذی ونسائی و موطا ئے امام مالک و موطا ئے امام محمد و غیر ہا صحاح و معتبرات سے نقل کیں کب مقاومت ( مقابلہ ) کر سکتی ہے، امام احمد بن حنبل وغیر و حفاظ نے اس کی تضعیف کی ، یحیی بن معین جیسے ناقدین جس کی نسبت امام مدوح نے فرمایا جس حدیث کو یحیی نہ پہچانے حدیث ہی نہیں فرماتے ہیں استثنائےفاتحہ غیر محفوظ ہے۔
ثانیا خود شافعیہ اس حدیث پر دو وجہ سے عمل نہیں کرتے ایک یہ کہ اس میں ماورائے فاتحہ سے نہی ہے اور ان کے نزد یک مقتدی کو ضم سورت ( سورت ملانا ) بھی جائز ہے۔
دوسرے یہ کہ حدیث مذکور جس طریق سے ابوداؤد نے روایت کی بآواز بلند منادی کہ مقتدی کو جہرا فاتحہ پڑھنا روا اوریہ امر بالاجماع ممنوع پس جو خود ان کے نزدیک متروک ہم پر اُس سے کسی طرح احتجاج کرتے ہیں۔ با لجملہ ہمارا مذہب مہذب بحمد اللہ حجج کا فیہ و دلائل وافیہ سے ثابت ، اور مخالفین کے پاس کوئی دلیل قاطع ایسی نہیں اسے معاذ اللہ باطل یا مضمحل کر سکے۔
مگر اس زمانہ پرفتن کے بعض جہال بے لگام جنھوں نے ہوائے نفس کو اپنا امام بنایا اورا نتظام اسلام کو درہم برہم کرنے کے لئے تقلید ائمہ کرام میں خدشات واو ہام پیدا کرتے ہیں جس ساز و سامان پر ائمہ مجتدین خصوصاً امام الائمہ حضرت امام اعظم میں اللہ تعالی عنہ کی مخالفت اور جس بضاعت مزجات پر ادعائے اجتہاد وفقاہت ہے عقلا ئے منصفین کو معلوم ، اصل مقصود ان کااغوائے عوام ہے کہ وہ بیچارے قرآن وحدیث سے ناواقف ہیں جوان مدعیان خام کار نے کہہ دیا اُنھوں نے مان لیا اگر چہ خواص کی نظر میں یہ باتیں موجب ذلت و باعث فضیحت ہوں۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 248