کیا اعمال و وظائف کے لیے سند ہونا ضروری ہے؟
:سوال
مشائخ کرام و پیران عظام جو اعمال وو ظائف بتاتے ہیں کیا ان کے لیے بھی سند ہونا ضروری ہے؟
:جواب
اعمال مشائخ محتاج سند نہیں اعمال میں تصرف وایجاد مشائخ کو ہمیشہ گنجائش۔
ہزاروں عمل اولیائے کرام بتاتے ہیں کہ باعث نفع بندگان خدا ہوتے ہیں کوئی ذی عقل حدیث سے ان کی سند خاص نہیں مانگتا کتب ائمہ وعلما و مشائخ واساتذہ شاہ ولی اللہ وشاہ عبدالعزیز اور خودان بزرگواروں کی تصانیف ایسی صد ہاباتوں سے مالا مال ہیں انہیں کیوں نہیں بدعت و ممنوع کہتے ، خود شاہ ولی اللہ ہوا مع میں لکھتے ہیں۔ اعمال تصریفیہ میں نئی نئی ایجاد کے لئے اجتہاد کا دروازہ کھولنا ایسے ہی ہے جیسے اطباء نسخوں کا استخراج کر لیتے ہیں اس فقیر کو معلوم ہے کہ اول صبح صادق سے سفیدی تک صبح کے مقابل بیٹھنا اور آنکھ کو اس کے نور واجالے کی طرف لگانا اور یا نور کا لفظ بار بار ایک ہزار تک پڑھنا کیفیت ملکیہ کو قوت دیتا ہے اور وسواس سے نجات دلاتا ہے۔
اس میں ہے چند کرامات تو ایسی ہیں جو کسی ولی سے الا ماشاء اللہ جدا نہیں ہوتیں ان میں سے بعض یہ ہیں فراست صادقہ ، کشف احوال، دلوں کے رازوں سے آگاہی اور ان میں سے دُعا و تعویذ ، دم اور اعمال تصرفیہ میں برکت ہے یہاں تک که سارا جهان ان کے اس فیض سے مستفید ہوتا ہے۔ عزیز و !خدارا انصاف ، ذرا شاہ ولی کے قول الجمیل کو دیکھو اور اُن کے والد و مشائخ و غیر ہم کے اختراعی اعمال تماشا کرو، دردسر کے لئے تختہ پر ریتا بچھانا کیل سے ابجد ہوز لکھنا، چیچک کو نیلے سوت کا گنڈا بنانا ، پھونک پھونک کر گرہیں لگانا، اسمائے اصحاب کہف سے استعانت کرنا، انہیں آگ لوٹ ، چوری سے امان سمجھنا ، دیواروں پر ان کے لکھنے کو آمد جن کی بندش جانا، دفع جن کو چار کیلیں گوشہ ہائے مکان میں گاڑ نا عقیمہ کے لئے گلاب اور زعفران سے ہرن کی کھال لکھنا ،
مزید پڑھیں:معانقہ (گلے ملنا) کس کس صورت میں جائز ہے؟
یہ کھال اس کے گلے کا ہار کرنا، اسقاط حمل کو کسم کا رنگا گنڈ انکالنا، عورت کے قد سے ناپنا، گن کرنوگر ہیں لگانا ، دردزہ کو آیات قرآنی لکھ کر عورت کی بائیں ران میں باندھنا، فرزند نرینہ کیلئے ہرن کی کھال اور وہی گلاب و زعفران کا خیال ، بچہ کی زندگی کو اجوائن اور کالی مرچیں لینا ان پر ٹھیک دو پہر کو قرآن پڑھنا لڑکا نہ ہونے کو عورت کے پیٹ پر دائرے کھینچنا ستر سے کم شمار نہ ہونا، دفع نظر کو چھری سے دائرہ کھینچنا، کنڈل کے اندر چھری رکھنا ، عائن و ساحر کا نام لے کر پکارنا، ناپ کر تین گز ڈورا لینا اس پر شہت بہت کیا کیا الفاظ غیر معلوم المعنی پڑھنا، قطاع النجا خدا جانے کون ہے اُسے ندا کرنا ، چور کی پہچان کا عمل نکالنا، یس پڑھ کر لوٹا گھمانا، بخار کوعیسی و موسی و محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی قسمیں دینا، مصروع کو تانبے کی تختی پر دواسم کھدوانا، پھر تعیین یہ کہ دن بھی خاص اتوار ہو اس کی بھی پہلی ہی ساعت میں کا رہو۔
اُس کے سوا صد ہا باتیں ہیں ان میں کون سی حدیث صحیح یا حسن یا ضعیف ہے، ارے یہ قرون ثلاثہ میں کب تھیں، اور جب کچھ نہیں تو بدعت کیوں نہ ٹھہریں، شاہ صاحب اور ان کے والد ماجد و فرزندار جمند و اسا تذہ و مشایخ معاذ اللہ بدعتی کیوں نہ قرار پائے، یہ سب تو بے سند حلال ونفاس اعمال مگر اذان میں حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا نام پا ک سن کر انگوٹھے چومنا آنکھوں سے لگا نا اُس سے روشنی بسر کی امید رکھنا کہ اکابر سلف سے ما ثور علماء وصلحاء کا دستور کتب فقہ میں مسطور یہ معاذ اللہ حرام وو بال و موجب ضلال ، تو کیا بات ہے یہاں نام پاک حضور سید المحبوبین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم درمیان ہے لہذا وہ دلوں کی دبی آ گ بحیلہ بدعت شعلہ فشاں ہے۔
مزید پڑھیں:اولاد پر خرچ کرنا، خیرات کرنا اور مستقبل کے لیے رکھنا کیسا؟
یہ سب در کنار شاه صاحب اور ان کے اسلاف و اخلاف یہاں تک کہ میاں اسمعیل دہلوی تک نے امر اعظم دین (دین کے اہم معاملے ) تقرب رب العلمین (اللہ رب العمین کا تقرب پانے میں) یعنی راہ سلوک میں صد ہانٹی با تیں نکالیں طرح طرح کے ایجاد و اختراع کی طر حیں ڈالیں اور آپ ہی صاف صاف تصریحیں کیں کہ ان کا پتا سلف صالح میں نہیں خاص ایجاد بندہ ہیں مگر نیک و خوب و خوش آئندہ ہیں محدثات کو ذریعہ وصول الی اللہ جانا یا باعث ثواب تقرب رب الارباب ما نا اس پر ان حضرات كونہ كل بدعة ضلالة ( ہر بدعت گمراہی ہے ) کا کلیہ یاد آتا ہے نہ من احدث في أمرنا ماليس منه ( وہ شخص جس نے ہمارے دین میں کچھ ایجاد کیا جو دین میں سے نہ ہو ) یہاں فھو رد ( پس وہ مردود ہے ) کا خلعت پاتا ہے، مگر شریعت اپنے گھر کی ٹھہری کہ ع من کنم آنچه می خواستم تو مکن آنچه خواستی ( میں جو چاہوں گا کروں گا تو جو چاہے نہ کر )

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 571

READ MORE  نئی بات(بدعت) کس کو کہتے ہیں؟
مزید پڑھیں:کسی فعل میں موضوع حدیث ہو تو کیا وہ ممنوع ہو جاتا ہے؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top