مشاجرات صحابہ میں تواریخ و سیر کی موحش حکایتیں مردود
:سوال
صحابہ کرام کے آپس کے معاملات میں تاریخ کی وہ باتیں جن سے ان کی شان گھٹتی ہو، کیا قابل قبول ہیں؟
:جواب
مشاجرات صحابہ میں تو اریخ وسیر کی موحش حکایتیں قطعاً مردود ہیں۔ بنظر واقع سیر میں بہت اکازیب واباطیل بھرے ہیں کمالا یخفی ( جیسا کہ خفی نہیں) ، بہر حال فرق مراتب نہ کرنا اگر جنون نہیں تو بد مذہبی ہے بد مذہبی نہیں تو جنون ہے، سیر جن بالائی باتوں کے لئے ہے اُس میں حد سے تجاوز نہیں کر سکتے اُس کی روایات مذکورہ کسی حیض و نفاس کے مسئلہ میں بھی سنے کی نہیں نہ کہ معاذ اللہ ان واہیات و معضلات و بے سروپا حکایات سے صحابہ کرام حضور سید الانام علیه وعلی آلہ وعلیہم افضل الصلوۃ والسلام پر طعن پیدا کرنا اعتراض نکالنا اُن کی شانِ رفیع میں رخنے ڈالنا کہ اس کاارتکاب نہ کرے گا مگر گمراہ بد دین مخالف و مضادحق مبین ۔
آج کل کے بد مذہب مریض القلاب منافق شعاران جزافات سیر و خرافات تو اریخ و امثالہا سے حضرات عالیہ خلفائےرا شدین دام المومنین و طلحه وز بیرو معاو یہ عمرو بن العاص و مغیرہ بن شعبہ و غیر ہم اہلبیت و صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کے مطاعن مردودہ اور ان کے باہمی مشاجرات میں موحش و مہل حکایات بیہودہ جن میں اکثر تو سرے سے کذب و واحض اور بہت الحاقات ملعونہ روافض چھانٹ لاتے اور اُن سے قرآن عظیم و ارشادات مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم واجماع امت واساطین ملت کا مقابلہ چاہتے ہیں ، بے علم لوگ انہیں سن کر پریشان ہوتے یا فکر جواب میں پڑتے ہیں اُن کا پہلا جواب یہی ہے کہ ایسے مہملات کسی ادنی مسلمان کو گنہگار ٹھہرانے کیلئے مسموع نہیں ہو سکتے نہ کہ اُن محبوبان خدا پر طعن جن کے مدائح تفصیلی خواہ !جمالی سے کلام اللہ و کلام رسول اللہ مالا مال ہیں جل جلالہو صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔
مزید پڑھیں:کسی فعل میں موضوع حدیث ہو تو کیا وہ ممنوع ہو جاتا ہے؟
امام حجتہ الاسلام مرشد الا نام محمدمحمدمحمد غزالی قدس سرہ العالی احیاء العلوم شریف میں فرماتے ہیں لا تجوز نسبة مسلم الى كبيرة من غير تحقيق نعم يجوز ان يقال ان ابن ملجم قتل عليا فان ذلک یشت متواترا ” کسی مسلمان كو كسى كبيره كى طرف بے تحقیق نسبت کرنا حرام ہے، ہاں یہ کہنا جائز ہے کہ ابن ملجم شقی خارجی اشقی الاخرین نے امیر المومنین مولی علی کرم اللہ وجہہ کو شہید کیا کہ یہ بتواتر ثابت ہے۔ حاش اللہ اگر مورخین و امثالہم کی ایسے حکایات ادنی قابل التفات ہوں تو اہل بیت و صحابہ در کنار خود حضرات عالیہ انبیاء و مرسلین و ملائکہ مقربین صلوات اللہ تعالی اسلامہ علیہم اجمعین سے ہاتھ دھو بیٹھنا ہے کہ ان مہملات مخذولہ نے حضرات سعادتنا و مولینا آدم صفی اللہ و او وخلیفہ اللہ و سلیمان نبی اللہ و یوسف رسول اللہ سے سید المرسلین محمد حبیب اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وعلیہم وسلم تک سب کے بارہ میں وہ وہ نا پاک بیہودہ حکایات موحشہ نقل کی ہیں کہ اگر اپنے ظاہر پر تسلیم کی جائیں تو معاذ اللہ اصل ایمان کو رو بیٹھنا ہے۔
ان ہولناک اباطیل کے بعض تفصیل مع رد جلیل کتاب مستطاب شفا شریف امام قاضی عیاض اور اس کی شروح و غیر ہا سے ظاہر، لا جرم ائمه ملت و ناصحان امت نے نصر یحیں فرمادیں کہ ان جہاں وضلال کے مہمالات اور سیرو تواریخ کی حکایت پر ہرگز کان نہ رکھا جائے ۔ شفا و شروح شفاو مواہب و شرح مواہب و مدارج شیخ محقق وغیر ہا میں بالاتفاق فرمایا ، جسے میں صرف مدارج النبوۃ سے نقل کروں۔ مدارج النبوتہ میں ہے نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی تعظیم واحترام در حقیقت آپ کے صحابہ کا احترام اوران کے ساتھ نیکی ہے ان کی اچھی تعریف اور رعایت کرنی چاہے اور ان کے لئے دعا و طلب مغفرت کرنی چاہئے بالخصوص جس جس کی اللہ تعالی نے تعریف فرمائی ہے اور اس سے راضی ہوا ہے اس سے وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے پس اگر ان پر طعن و سب کرنے والا ( طعنہ دگالی دینے والا ) دلائل قطعیہ کا منکر ہے تو کافر ورنہ مبتدع و فاسق ، اسی طرح ان کے درمیان جو اختلافات یا جھگڑے یا واقعات ہوئے ہیں
مزید پڑھیں:اولاد پر خرچ کرنا، خیرات کرنا اور مستقبل کے لیے رکھنا کیسا؟
ان پر خاموشی اختیار کرنا ضروری ہے اور ان اخبار و واقعات سے اعراض کیا جائے جو مورخین، جاہل راویوں اور گمراہ وغلو کرنے والے شیعوں نے بیان کیے ہیں اور بدعتی لوگوں کے ان عیوب اور برائیوں سے جو خود ایجاد کر کے ان کی طرف منسوب کر دئے اور ان کے ڈگمگا جانے سے کیونکہ وہ کذب بیانی اور افترا ہے اور ان کے درمیان جو محاربات و مشاجرات منقول ہیں ان کی بہتر توجیہ وتاویل کی جائے ، اور ان میں سے کسی پر عیب یا برائی کا طعن نہ کیا جائے بلکہ ان کے فضائل، کمالات اور عمدہ صفات کا ذکر کیا جائے کیونکہ حضور علیہ السلام کے ساتھ ان کی محبت یقینی ہے اور اس کے علاوہ ہائی معاملات ظنی ہیں اور ہمارے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں اپنے حبیب علیہ السلام کی محبت کے لئے منتخب کر لیا ہے اہل سنت و جماعت کا صحابہ کے بارے میں یہی عقیدہ ہے اس لئے عقائد میں تحریر ہے کہ صحابہ میں سے ہر کسی کا ذکر خیر کے ساتھ ہی کیا جائے، اور صحابہ کے فضائل میں جو آیات واحادیث عموماً یا خصوصا دارد ہیں وہ اس سلسلہ میں کافی ہیں۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 582

READ MORE  Fatawa Rizvia jild 04, Fatwa 189 to 191
مزید پڑھیں:کیا اعمال و وظائف کے لیے سند ہونا ضروری ہے؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top