:سوال
کیا اہل قبور اپنے زائرین سے کلام کرتے اور ان کے سلام و کلام کا جواب دیتے ہیں ؟ اس بارے میں کچھ ا اقوال علماء ارشاد فرما دیں۔
:جواب
وہ اپنے زائروں سے کلام کرتے اور ان کے سلام و کلام کا جواب دیتے ہیں۔ زہر الر بی شرح سنن نسائی میں نقل فرمايا
ان للروح شانا اخر فتكون في الرفيق الأعلى وهي متصلة بالبدن بحيث اذا سلم المسلم على صاحبه رد عليه السلام وهي في مكانها هناك الى ان قال انما ياتى الغلط ههنا من قياس الغائب على الشاهد فيعتقدون ان الروح من جنس ما يعهد من الاجسام التي اذا شغلت مكانا لم يمكن ان تكون في غيره وهذا غلط محض
محض روح کی شان جدا ہے حالانکہ ملاء اعلیٰ میں ہوتی ہے پھر بھی دن سے ایسی متصل ہے کہ جب سلام کرنے والا سلام کرے جواب دیتی ہے۔ لوگوں کو دھو کا اس میں یوں ہوتا ہے کہ بے دیکھے چیز کو محسوسات پر قیاس کر کے روح کا حال جسم کا سا سمجھتے ہیں کہ جب ایک مکان میں ہو اسی وقت دوسرے میں نہیں ہو سکتی حالانکہ یہ محض غلط ہے۔
ر ہر الری حاشیہ علی النسائی ، ج 1 ص 292 نور محمد کارخانہ تجارت کتب، کراچی)
مزید پڑھیں:کیا موت سے روح میں اصلاً تغیر نہیں ہوتا؟
علامہ زرقانی شرح مواہب میں نقل فرماتے ہیں “
رد السلام على المسلم من الانبياء حقيقي بالروح والجسد بحملته، ومن غير الانبياء والشهداء باتصال الروح بالجسد اتصالا يحصل بواسطته التمكن من الرد مع كون ارواحهم ليست في اجساد هم وسواء الجمعة وغيرها على الاصح، لكن لا مانع ان الاتصال في الجمعة واليومين المكتنفين به اقوى من الاتصال في غيرها من الايام
انبیاء علیہم الصلوة والسلام کا جواب سلام سے مشرف فرمانا تو حقیقی ہے کہ روح و بدن دونوں سے ہے اور انبیاء و شہداء کے سوا اور مومنین میں یوں ہے کہ ان کی روحیں اگر چہ بدن میں نہیں تاہم بدن سے ایسا اتصال رکھتی ہیں جس کے باعث جواب سلام پر انھیں قدرت ہے اور مذہب اصح یہ ہے کہ جمعہ وغیرہ سب دن برابر ہیں ، ہاں اس کا انکار نہیں کہ پنجشنبه و جمعه و شنبہ میں اور دونوں کی نسبت اتصال اقوی ہے۔
الزرقانی شرح المواہب ، ج 8، ص 352، الطبعة العامرة مصر )
شرح الصدور و طحطاوی حاشیہ مراقی میں نقل فرمایا
الاحاديث والآثار تدل على ان الزائر متى جاء علم به المزور وسمع سلام وانس به ورد عليه وهذا عام في حتى الشهداء وغيرهم وانه لا توقيت في ذلك “
احادیث و آثار دلیل ہیں کہ جب زائر آتا ہے مردے کو اس پر علم ہوتا ہے کہ اس کا سلام سنتا ہے اور اس سے انس کرتا ہے اور اس کو جواب دیتا ہے اور یہ بات شہداء و غیر شہداء سب میں عام ہے نہ اس میں کچھ وقت کی خصوصیت کہ بعض وقت ہو اور بعض وقت نہیں۔
حاشیہ الطحطاری علی مراقی الفلاح ص 620 دار الکتب العلمیة بیروت
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر9، صفحہ نمبر 764