:سوال
کسی بزرگ کے مزار پرلوبان جلا نا شرع میں کیا حکم رکھتا ہے؟ اور جو شخص جلانے والے کو فاسق و بدعتی کہے اس کا کیا حکم ہے؟
: جواب
عود ولو بان وغیرہ کوئی چیز نفس قبر خود قبر پر رکھ کر جلانے سے احتراز (بچنا چاہئے اگر چہ کسی برتن میں ہو لما فيه من التفاول القبيح بطلوع الدخان على القبر و العیاذ باللہ ترجمہ: کیونکہ اس میں قبر کے اوپر دھواں نکلنے کا برافال پایا جاتا ہے، اور خدا کی پناہ۔ اور قریب قبر سلگانا اگر وہاں کچھ لوگ بیٹھے ہوں نہ کوئی تالی ( تلاوت کرنے والا) یا ذاکر ہو بلکہ صرف قبر کے لئے جلا کر چلا آئے ظاہر منع ہے کہ اسراف واضاعت مال ( مال کو ضائع کرنا) ہے، میت صالح اس غرفے ( دروازے) کے سبب جو اس کی قبر میں جنت سے کھولا جاتا ہے
مزید پڑھیں:مسلمانوں پر قبرستان کا احترام کسی حد تک واجب ہے؟
اور بہشتی نسیمیں (جنتی ہو ئیں) بہشتی پھولوں کی خوشبو یں لاتی ہیں، دنیا کے اگر (اگر بتی)، لوبان سے غنی ( بے پروا ) ہے اور معاذ اللہ جو دوسری حالت میں ہوا سے اس سے انتفاع (فائدہ) نہیں۔ تو جب تک سند مقبول سے نفع معقول نہ ثابت ہو سبیل احتراز ہے ( بچنا چاہئے )۔ اور اگر بغرض حاضرین وقت فاتحہ خوانی یا تلاوت قرآن عظیم و ذکر الہی سلگا ئیں تو بہتر ومستحسن ہے۔ جو اسے فسق و بدعت کہے محض جاہلانہ جرات کرتا ہے یا اصول مردودہ وہابیت ( وہابیت کے مردو د اصولوں ) پر مرتا ہے، بہر حال یہ شرع مطہرہ پر افتراء ( بہتان) ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر9، صفحہ نمبر 482