:سوال
انگوٹھے چومنے کے بارے میں کچھ روایات اور اقوال ائمہ و فقہا ء ارشاد فرمادیجئے ۔
:جواب
امام سخاوی الحسنتہ في الاحاديث الدارة على الالسنتہ میں فرماتے ہیں
مسح العينين بیاطن انملتي السبابتين بعد تقبيلهما عند سماع قول المؤذن اشهد ان محمدا رسول الله مع قوله اشهد ان محمدا عبده ورسوله رضيت بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد صلى الله تعالى عليه وسلم نبينا ذكره الديلمي في الفردوس من حدیث ابي بكر الصديق رضى الله تعالى عنه انه لما سمع قول المؤذن أشهد أن محمدا رسول الله قال هذا وقبل باطن الانملتين السبابتين ومسح عينيه فقال صلى الله تعالى عليه وسلم مَنْ فَعَلَ مِثْل مَا فَعَلَ خَلِيلِي فَقَدْ حَلَّتْ عَلَيْهِ شفاعَتِي وَلا يصح ،
یعنی مؤذن سے اشھد ان محمد رسول اللہ سن کر انگشتان شہادت کے پورے جانب باطن سے چوم کر آنکھوں پر ملنا اور یہ دعا پڑھنا اشھد ان محمدا عبده ورسوله ، رضيت بالله ربا وبالاسلام دینا وبمحمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نببیا، اس حدیث کو دیلمی نے مسند الفردوس میں حدیث سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا کہ جب اس جناب نے مؤذن کو اشھد ان محمد رسول اللہ کہتے سنا یہ دعا پڑھی اور دونوں کلمے کی انگلیوں کے پورے جانب زیریں سے چوم کر آنکھوں سے لگائے، اس پر حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا جو ایسا کرے جیسا میرے پیارے نے کیا اس کے لئے میری شفاعت حلال ہو جائے، اور یہ حدیث اس درجہ کو نہ پہنچی جسے محدثین اپنی اصطلاح میں درجہ صحت نام رکھتے ہیں
مزید پڑھیں:انگھوٹے چومنے کے بارے میں موجود روایات صحیح یا ضعیف
(امام سخاوی علیہ الرحمہ نے ) پھر فرمایا ”
عن الخصر عليه السلام أنه قال من قال حين يسمع المؤذن يقول
اشهد ان محمدا رسول الله، مرحبا بحيبي وقرة عينى محمد بن عبد الله صلى الله تعالى عليه وسلم ، ثم يقبل ابها ميه ويجعلهما على عينيه لم يرمد ابدا
” یعنی حضرت سید نا خضر علیہ الصلاح والسلام سے روایت کی کہ وہ ارشاد فرماتے ہیں جو شخص مؤذن سے اشھد ان محمدا رسول اللہ بن کر مرحبا کہیں وقرة عینی محمد بن عبداللہ صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے پھر دونوں انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر رکھے اس کی آنکھیں کبھی نہ دکھیں۔
پھر فرمایا ”
و حكى الشمس محمد بن صالح نالمدنی امامها و خطيبها في تاريخه عن المجد احدالقدماء من المصريين انه سمعه يقول من صلي على النبي صلى الله تعالى عليه وسلم اذا سمع ذكره في الادان، وجمع اصبعيه المسبحة والابهام وقبلها ومسح بهما عينيه لم يرمد. ابدا ،
یعنی شمس الدین محمد بن صالح مدنی مسجد مدینہ طیبہ کے امام و خطیب نے اپنی تاریخ میں مجد مصری سے کہ سلف صالح میں تھے نقل کیا کہ میں نے انہیں فرماتے سنا جو شخص نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا ذکر پاک اذان میں سُن کر کلمہ کی انگلی اور انگوٹھا ملائے اور انہیں بوسہ دے کر آنکھوں سے لگائے اُس کی آنکھیں کبھی نہ دکھیں۔
پھر فرمایا
” قال ابن صالح وانا ولله الحمد والشكر منذ سمعة منهما استعملته، فلم ترمد عينى وارجوان ہے عافیتھماتدوم وانی اسلم من العلمی ان شا ء اللہ تعالیٰ
یعنی امام ابن صالح نے فرمایا اللہ کے لئے حمدو شکر ہے جب سے میں نے یہ عمل ان دونوں صاحبوں سے سنا اپنے عمل میں رکھا آج تک میری آنکھیں نہ دکھیں اور اُمید کرتا ہوں کہ ہمیشہ اچھی رہیں گی اور میں کبھی اندھا نہ ہوں گا ان شاء اللہ تعالی۔
شرح نقایہ میں ہے
او اعلم انه يستحب أن يقال عند .سماع الاولی من الشھادہ الثانیہ۔ صلی اللہ تعالیٰ عليك يارسول الله وعند الثانية منها قرة عيسى بك يارسول الله ” ثم يقال “اللهم متعنى بالسمع والبصر بعد وضع طفرى الابهامين على العيبين فإنه صلى الله تعالى عليه وسلم يكون قاعداً لهالي الجنة كذافي كبر العباد ،
یعنی خبردار ہو بیشک مستحب ہے کہ جب اذان میں پہلی بار اشهد ان محمداً رسول اللہ سنے صلَّى اللهُ عَلَيْكَ يَارَسُولَ اللہ کہے اور دوسری بار قرة عيني بك يارسول اللہ پھر انگوٹھوں کے ناخن آنکھوں پر رکھ کر کہے اللهم متعبى بالسمع والبصر كہ نبی صلى الله تعالى عليه وسلم اپنے پیچھے پیچھے اُسے جنت میں لے جائیں گے، ایسا ہی کنز العباد میں ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 432