زكوة کی رقم مدرسہ میں دینا جائز ہے یا نہیں؟
:سوال
مال زكوة مدرسہ اسلامیہ میں دینا جائز ہے یا نہیں؟
:جواب
مدرسہ اسلامیہ اگر صیح اسلامیہ خاص اہلسنت کا ہو۔ نیچریوں، وہابیوں، قادیانیوں، رافضیوں، دیوبندیوں وغیر ہم مرتدین کا نہ ہو تو اس میں مال زکوۃ اس شرط پر دیا جاسکتا ہے کہ مہتم اس مال کو جدا رکھے اور خاص تملیک فقیر کے مصارف
میں صرف کرے مدرسین یا دیگر ملازمین کی تنخواہ اس سے نہیں دی جا سکتی۔
نہ مدرسہ کی تعمیر یا مرمت یا فرش وغیرہ میں صرف ہو سکتی ہے، نہ یہ ہو سکتا ہے کہ جن طلبہ کو مدرسہ سے کھان ادیا جاتا ہے اُس روپے سے کھانا پکا کر ان کو کھلایا جائے کہ یہ صورت اباحت ہے اور زکوۃ میں تملیک لازم ہاں یوں کر سکتے ہے کہ جن طلبہ کو کھانا دا جاتا ہے اُن کو نقد روپیہ بہ نیت زکوۃ دے کر مالک کر دیں پھر وہ اپنے کھانے کیلئے واپس دیں یا جن طلبہ کو وظیفہ نہ اجرۃ بلکہ بطور امداد ہے اُن کے وظیفے میں دیں یا کتابیں خرید کر طلبہ کو ان کا مالک کر دیں۔
ہاں اگر روپیہ بہ نیت زکوہ کسی مصرف زکو ۃ دے کر مالک کر دیں وہ اپنی طرف سے مدرسہ کو دے دے تو تنخواہ مدرسین و ملازمین وغیرہ جملہ مصارف مدرسہ میں صرف ہو سکتا ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 254

مزید پڑھیں:پیشہ ور گدا گروں(بھیک مانگنے والے) کو زکوۃ دینا کیسا ہے؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔
READ MORE  کیا زکوۃ سے کتب خرید کر کسی مدرسہ کے لیے وقف ہو سکتی ہیں؟

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top