:سوال
ایک آدمی کے پاس سو روپے تھے، اس نے ایک سال ان کی زکوۃ ادا کی ، دوسرے سال بھی اس کے پاس وہ روپے محفوظ رہے، کیا اس برس بھی ان کی زکوۃ نکالنی ہے؟
: جواب
ہر برس ضرور ( نکالنی ) ہے، جب تک مال زکوۃ جو اُس کی ملک ہے حقیقہ یا حکما نصاب یعنی ساڑھے سات تولہ سونے یا ساڑھے باون تولہ چاندی یعنی انگریزی چھپن 56 روپے سے کم نہ ہو جائے۔
حقیقہ کم ہو جانا یہ کہ زکوۃ وغیرہ میں صرف کرتے خواہ کسی اور طور سے گھٹ جائے اور حکما یہ کہ ہر برس زکوۃ واجب ہوتی رہی اور ادانہ کی کہ ہر سال زکوۃ کا دین اس پر چڑھتارہا یہاں تک کہ مال زکوۃ قدر نصاب نہ رہا مثلا صرف یہی سوروپے، مگر اس کے پاس مال زکوۃ تھا اور یہی رہا
اور مال زیادہ نہ ہوا تو اب پہلے سال تمام پر بر بنائے مذہب صاحبین ڈھائی روپے ہوئے مگر اس نے ادا نہ کی ، دوسرے سال تمام پر زکوۃ صرف 97 روپے 8 آنے رہی کہ 2 روپے 8 آنے دین زکوۃ سال گزشتہ میں مشغول ہیں، اس سال 2 روپے 7 آنے واجب ہوئے، تیسرے سال تمام پر دو سال گزشتہ کا دین زکوة 4 روپے 15 آنے مستعفی ہو کر فقط پچانوے روپے ایک آنہ پر زکوۃ آئی کہ دو (2) روپیہ چھ (6) آنے اور ایک پیسے کی چاندی دسواں حصہ ہوا وعلى هذا القياس (اس قیاس پر ) جب گھٹتے گھٹتے 56 روپے سے کم رہ جائے تو زکوۃ واجب نہ ہوگی۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 154