وہ کام جو امامت کے منافی ہیں؟
:سوال
جس میں حسب ذیل اوصاف ہوں وہ شخص لائق امامت ہے یا نہیں ؟
(۱)
نماز میں قرآن شریف جو پڑھتے ہیں اس میں کبھی نیچے کی آیت او پر پڑھ جاتے ہیں کبھی آیت چھوٹ جاتی ہے۔
(۲)
فجر کی نماز اکثر قضا پڑھا کرتے ہیں۔
(۳)
ظہر کا وقت کبھی سونے میں گزر جاتا ہے ایسے تنگ وقت میں نماز پڑھتے ہیں کہ فرض پڑھتے ہی عصر کا وقت آ جاتا
(۴)
مغرب کا وقت سیر بازار میں گزرتا ہے تنگ وقت میں واپس آتے ہیں، جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آپ مسجد کے امام ہیں اور نماز اور لوگوں کو پڑھانا پڑتی ہے تو اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ نماز کا میں کچھ پابند نہیں ہوں۔
(۵)
اپنے وضو کا لوٹا اور گھڑ انہانے کا علیحدہ رکھتے ہیں۔
(۶)
ایک رافضی سے بے تکلفی ہے کہ اس کیساتھ کھانا کھاتے ہیں اور مسجد میں با ہم دونوں کے مذاق بے تکلفانہ اور معشوقانہ ہوا کرتا ہے۔
(۷)
نماز کے مسائل معلوم نہیں ہیں۔
:جواب
سہوا کسی آیت میں تقدیم و تاخیر یاکسی آیت کا چھوٹ جانا اگر نا درا ہو تو مضائقہ نہیں اور اکثر ایسا ہوتا ہے تو ایسے شخص کی امامت سے احتراز اولی ہے جبکہ دوسرا صیح خواں صیح العقیدہ صیح الطہارت غیر فاسق معلن قابل امامت موجود ہو، نماز فجر اتفاقاً قضا ہو جانے پر مواخذہ نہیں جبکہ اپنی طرف سے تقصیر نہ ہو، مگر اکثر قضا ہونا بے تقصیر نہیں ہوتا، اگر کوئی علت صحیح شرعی قابل قبول نہ رکھتا ہو تو بے پروائی ضرور سے حد فسق تک پہنچائے گی، اور فاسق کو امام بنانا منع ہے۔ جو شخص آفتاب ڈھلنے ظہر کا وقت شروع ہونے سے پہلے سوئے اور کسی مرض یا ماندگی کے سبب اتفاقاً ایسا ہو جائے کہ ظہر کا وقت گزر جائے تو اس پر الزام نہیں ۔ رسول اللہ صل اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں ”لا تفريط في النوم انما التفريط في اليقظة ”سونے میں قصور نہیں، قصور جاگنے میں ہے۔
(سنن ابوداؤ در ج 1، ص 63، آفتاب عالم پریس، لاہور )
اور اگر ظہر کا وقت آگیا یعنی آفتاب دائرہ نصف النہار سے ڈھل گیا اس کے بعد سویا اور وقت بالکل گزار دیا تو اس پر الزام ہے۔۔ اور جبکہ اس کا عادی ہو، بارہا ایسا واقع ہو تو ضرور فاسق ہے اُسے امام بنانا گناہ ، یونہی اگر اتنے سونے کا عادی ہو کہ فرض ظہر پڑھتے ہی وقت عصر واقعی آ جاتا ۔ آجاتا ہے سنت کا وقت نہیں ملتا تو اس صورت میں بھی ترک سنت مؤکدہ کی عادت کے سبب آثم وگنہ گار اور امام بنانے کا ناسزاوار ہے۔
مغرب کا وقت سیر بازار میں تنگ کر دینا اگر اتنا ہو کہ چھوٹے چھوٹے ستارے بھی ظاہر ہوجائیں کہ حقیقت تنگ وقت یہی ہے جب تو اُس کا مکروہ ممنوع ہونا ظاہر اور اگر اتنا بھی نہ ہو تواس قدر میں شک نہیں کہ جماعت یا اقل درجہ جماعت اولی ضرور متروک ہوئی۔ تو اُس کے ترک کی عادت بھی فسق ہے اور ایسے کی امامت ممنوع ۔ اور وہ لفظ کہ میں نماز کا کچھ پابند نہیں ہوں اپنے ظاہر پر بدتر شنیع ترفسق ہے، اپنے وضو اور نہانے کے لئے برتن علیحدہ رکھنا اگر براہ تکبر ہو تو سخت کبیرہ اور براہ وہم و وسوسہ ہو جب بھی ممنوع ، اس کا مرتکب فاسق افسق ہے
یا د ہمی احمق، دین اسلام میں نہ چھوت ہے نہ وساوس پروری۔ روافض زمانہ على العموم کفار و مرتد ہیں۔۔ اور مرتدین سے میل جول حرام ، اور مسجد میں ایسا نداق سنی صحیح العقیدہ سے بھی حرام ۔لا جرم شخص مذکور سخت فاسق و فاجر مرتکب کبائر ہے اور اس کی امامت ممنوع، اسے امام بنانا حرام ، اُس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ، اور نماز کے مسائل ضرور یہ کا نہ جانتا بھی فسق ہے، بہر حال شخص مذکور کی امامت کی ہرگز اجازت نہیں۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 522

READ MORE  پیسے لے کر امامت کروانے والے کے پیچھے نماز کا حکم؟
مزید پڑھیں:جس شخص کو جزام ہو اس کے پیچھے نماز کا کیا حکم ہے؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top