تراویح میں سامع کے علاوہ کسی اور شخص کا لقمہ دینا کیسا؟
:سوال
زید ایک مسجد میں ترایح سناتا ہے، عمر و اس کا سامع ہے، محمود ایک تیسرا شخص ہے جو ہمیشہ یا کبھی کبھی اسی مسجد میں زید کے پیچھے تراویح پڑھا کرتا ہے اگر محمود کے خیال میں زید (امام ) نے کچھ غلط پڑھا اور عمرو مقرر کیا ہوا سامع سہوا یا عمداً خاموش رہا یا یہ کہ زید نے صحیح پڑھا اور عمرو نے سہوا یا عمداً غلاط بتایا یا یہ کہ زید نے غلط پڑھا اور عمرو نے بھی سہوا یا عمد اغلط بتایا تو ان تینوں صورتوں میں محمود شخص ثالث کو غلطی کی تصحیح کا اگر چہ وہ غلطی مفسد نماز نہ ہو حق حاصل ہے یا نہیں؟
:جواب
امام جب ایسی غلطی کرے جو موجب فساد نماز ( نماز فاسد ہونے کا سبب ) ہو تو اس کا بتانا اور اصلاح کرانا ہر مقتدی پر فرض کفایہ ہے ان میں سے جو بتادے گا سب پر سے فرض اُتر جائے گا اور کوئی نہ بتائے گا تو جتنے جاننے والے تھے سب مرتکب حرام ہوں گے اور نماز سب کی باطل ہو جائے گی۔ اور ایک کا بتانا سب پر سے فرض اس وقت ساقط کرے گا کہ امام مان لے اور کام چل جائے ورنہ اوروں پر بھی بتانا فرض ہوگا یہاں تک کہ حاجت پوری اور امام کو وثوق ( یقین ) حاصل ہو، بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک کے بتائے سے امام کا اپنی غلط یاد پر اعتماد نہیں جاتا اور وہ اس کی تصحیح کو نہیں مانتا اور اس کا محتاج ہوتا ہے کہ متعدد شہادتیں اس کی غلطی پر گزریں تو یہاں فرض ہوگا کہ دوسرا بھی بتائے اور اب بھی امام رجوع نہ کرے تو تیسرا بھی تائید کرے یہاں تک کہ امام صحیح کی طرف واپس آئے۔ اور اگر غلطی ایسی ہے جس سے واجب ترک ہو کر نماز مکروہ تحریمی ہو تو اس کا بتانا ہر مقتدی پر واجب کفایہ ہے اگر ایک بتادے اور اس کے بتانے سے کاروائی ہو جائے سب پر سے واجب اتر جائے ورنہ سب گنہگار رہیں گے۔اور اگر اس غلطی میں نہ فساد نماز ہے نہ ترک واجب ، جب بھی ہر مقتدی کو مطلقاً بتانے کی اجازت ہے۔ مگر یہاں وجوب کسی پر نہیں لعدم الموجب ( واجب کرنے والی چیز کے نہ پائے جانے کی وجہ سے ) ۔
اقول ( میں کہتا ہوں ) مگر دو صورتوں میں ایک یہ کہ امام غلطی کر کے خود متنبہ ہوا اور یاد نہیں آتا یاد کرنے کے لئے رکا اگر تین بار سبحان اللہ کہنے کی قدررکے گا نماز میں کر اہت تحریم آئے گی اور سجدہ سہو واجب ہوگا ۔ ۔ تو اس صورت میں جب اُسے رکا دیکھیں مقتدیوں پر بتانا واجب ہو گا کہ سکوت قدرنا جائز تک نہ پہنچے۔ دوسرے یہ کہ بعض نا واقفوں کی عادت ہوتی ہے جب غلطی کرتے ہیں اور یاد نہیں آتا تو اضطراراً اُن سے بعض کلمات بے معنی صادر ہوتے ہیں کوئی اوں اوں کہتا ہے کوئی کچھ اور ، اس سے نماز باطل ہو جاتی ۔ ہے تو جس کی یہ عادت معلوم ہے وہ جب رکنے پر آئے مقتدیوں پر واجب ہے کہ فوراً بتا ئیں قبل اس کے کہ وہ اپنی عادت کے حروف نکال کر نماز تباہ کرے۔
مزید پڑھیں:نماز میں عورت کی فرج کو دیکھا تو نماز کا حکم
اقول ( میں کہتا ہوں ) اور ان دونوں صورتوں کے سوا جب تراویح میں ختم قرآن عظیم ہو تو ویسے بھی مقتدیوں کو بتانا چاہئے جبکہ امام سے نہ نکلے یا وہ آگے رواں ہو جائے اگر چہ اس غلطی سے نماز میں کچھ خرابی نہ ہو کہ مقصود ختم کتاب عزیز ہے اور وہ کسی غلطی کے ساتھ پورا نہ ہوگا، یہاں اگر چہ یہ بھی ممکن ہے کہ اس وقت نہ بتائے بعد سلام اطلاع کر دے امام دوسری تراویح میں اتنے الفاظ کریمہ کا صحیح طور پر اعادہ کرلے مگر اولٰی بھی بتاتا ہے حتی الامکان نظم قر آن اپنی ترتیب کریم پر ادا ہو۔ اوران تمام احکا م میں جملہ مقتدی یکسا ں ہیں امام کو بتانا کسی خاص مقتدی کا حق نہیں ، ارشادات حدیث وفقہ سے مطلق ہیں ابن عسا کرنے سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، فرماتے ہیں” امرنا النبي صلى اللہ تعا لی عليہ وسلم أن نرد على الامام” ہم کونبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حکم دیا کہ امام پر اس کی غلطی رد کریں۔
( المستد رک الصحیحین ج1،ص270،دارلفکر،بیروت)
ابو عبد الرحمن روایت کرتے ہیں کہ امیر المومنین علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا ” من السنة ان تفح على الاماء اذا استطعمك قيل لابي عبد الرحمن ما استطعام الامام قال اذا سكت ” سنت ہے کہ جب امام تم سے لقمہ ، مانگے تو اسے لقمہ دو، ابوعبدالرحمان سے کہا گیا امام کا مانگنا کیا ، کہا جب وہ پڑھتے پڑھتے چپ ہو جائے ۔
(المستدرک علی الصحیحین ، ج1،ص 270 ،دارلفکربیروت
کتب مذہب میں عموماً یجوز فتحہ علی امامہ (اپنے امام کو لقمہ دینا جائز ہے ) فرمایا جس میں ضمیر مطلق مقتدی کی طرف ہے کہ اسے امام کو بتانے کی اجازت ہے مسئلہ کی دلیل جو علماء نے فرمائی وہ بھی تمام مقتدی کو شامل ہے۔ بحر الرائق وغیرہ میں ہے” لانه تعلق به اصلاح صلاته ”ترجمہ: کیونکہ اس کے ساتھ مقتدی کی نماز کی اصلاح متعلق ہے۔
(بحر الرائق ، ج 2 ،ص 6 ،ایچ ایم سعید کمپنی ،کراچی)
مزید پڑھیں:سر پر رومال باندھ کر نماز پڑھی جائے تو کیا حکم ہے؟
حتی کہ بالغ مقتدیوں کی طرح تمیز دار بچہ کا بھی اس میں حق ہے کہ اپنی نماز کی اصلاح کی سب کو حاجت ہے ۔ قوم کا کسی کو سامع مقرر کرنے کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ اس کے غیر کو بتانے کی اجازت نہیں اور اگر کوئی اپنے جاہلا نہ خیال سے یہ قصد کرے بھی تو اس کی ممانعت سے وہ حق کہ شرع مطہر نے عام مقتدیوں کو دیا کیونکر سلب ہو سکتا ہے اور اس کے سبب کسی مسلمان پر تشد دیا مسجد میں آنے سے ممانعت یا معاذ اللہ سجد سے نکلواد ینا سخت حرام ہے ۔ اس بیان سے جملہ مدارج سوال کا جواب منکشف ہو گیا بیشک محمود کو سب صورتوں میں عین نماز میں بتانے کا حق حاصل ہے کہیں وجوبا کہیں اختیارا، جس کی تفصیل او پرگزری اور بحال وجوب عینی خاموشی میں گناہ ہو گا خصوصاً اس حالت میں کہ عمرو غلط بتائے
کہ اب تو بہت جلد فوراً فوراً صحیح بتانے کی طرف مبادرت ( جلدی کرنا ) واجب ہے کہ بتانا تعلیم و کلا م تھا اور بضرورت اصلاح نماز جائز رکھا گیا اور غلط بتانے میں نہ اصلاح نہ ضرورت، تو اصل پر رہنا چاہئے تو عمرو نے اگر قصداً مغالطہ دیا جب تو یقیناً اس کی نماز جاتی رہی اور اگر امام اس کے مغالطے کو لے گا عام از یں کہ امام نے غلط پڑھا ہو یا صحیح تو ایک شخص خارج از نماز کا امتثال ( پیروی کرنا )یا اس سے تعلم (سیکھنا )ہوگا اور یہ خود مفسد نماز ہےتو امام کی نماز جائے گی اور اس کے ساتھ سب کی باطل ہوگی ، لہذا اس فساد کا انسداد فوراً واجب ہے۔ اور اگر سہواً غلط بتایا تو بظاہر حکم کتاب و قضیہ دلیل مذکور اب بھی وہی ہے۔
اقول مگر فقیر امید کرتا ہے کہ شرع مطہر ختم قرآن مجید فی التراویح میں اس باب میں تیسیر ( آسانی ) فرمائے کہ سامع کا خود غلطی کرنا بھی نادر نہیں اور غالبا قاری اسے لے لیتا یا اس کے امتشال کے لئے اوپر سے پھر عود کرتا ہے تو اگر ہر بار بحال ہو فساد نماز کا حکم دیں اور قرآن مجید کا اعادہ کرا ئیں حرج ہوگا و الحرج مدفوع بالنص ( دین میں تنگی کا مدفوع ہونانص سے ثابت ہے ) بہر حال یہ حکم قابل غور ومحتاج تحریر تام ہے۔ تو اندیشہ فساد سے تحفظ کے لئے عمروکے غلط بتانے کی حالت میں مطلقاً دوسروں کو صحیح بتانے کی طرف فوراً فورا مبادرت ( جلدی کرنی )چاہئے۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 280 تا 286

READ MORE  بے نمازیوں کو سمجھانے کا طریقہ
مزید پڑھیں:تراویح میں سامع کے علاوہ لوگوں کا امام کو لقمہ دینا
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top