آذان جو خارج مسجد کہنا مسنون ہے ، اگر اس سنت کو قائم کرنے میں فتنہ ہو تو کیا حکم ہے؟
:سوال
آذان جو خارج مسجد کہنا مسنون ہے ، اگر اس سنت کو قائم کرنے میں فتنہ ہو تو کیا حکم ہے؟
:جواب
یہاں دو چیزیں ہیں ایک اتیان معروف و اجتناب منکر ( نیک کام کرنا اور برائی سے بچنا ) ،
دوسرے امربالمعروف ونهى عن المنكر ( نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا ) ۔
مسجد میں اذان دینا ممنوع ہے اور اس میں دربار الہی کی بے ادبی ہے تو جو مسجد اپنی ہے اس میں خود مخالفت سنت نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ سلم ارتکاب بے ادبی در بار عزت کا مواخذہ اس کی ذات پر ہے
اور مسجد پرائی ہے اور وں کا اس میں اختیار ہے اُس کا مواخذہ اُن پر ہے اس کے ذمے صرف اتنار کھا گیا ہے کہ ازالہ منکر پر قدرت نہ ہو تو زبان سے منع کر دے اور اس میں بھی فتنہ وفساد ہو تو دل سے برا جانے ، پھر ان کے فعل کا اس سے مطالبہ نہیں،
اللہ تعالی فرماتا ہے
لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخرى
ترجمہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
مزید پڑھیں:کیا فجر کی سنتیں بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں؟
حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ سلم فرماتے ہیں
من رای منکم منكرا فلیغیره بیده فان لم يستطع فبلسانه فان لم يستطع فبقلبه، وذلك اضعف الايمان “
تم میں سے جب کوئی بُرائی دیکھے تو ہاتھ سے اُسے روکنے کی کوشش کرے اور اگر اس کی طاقت نہیں رکھتا تو زبان سے منع کرے اور اگر اس پر بھی قادر نہ ہو تو دل سے بُرا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے
اور جس طرح یہ دوسروں کو حکم شرع ماننے پر مجبور نہیں کر سکتا یوں ہی دوسرے حکم شرع کی مخالفت پر اسے مجبور نہیں کر سکتے، یہ اپنے نزدیک جو طریقہ اپنے رب کی عبادت اور اپنے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے اتباع سنت کا اپنی کتب دینیہ سے جانتا ہے دوسرا اگر اس میں مزاحمت کرے گا اور فتنہ و فساد اُٹھائے گا تو اس کا ذمہ دار وہ دوسرا ہو گا حکومت ہر مفسد کا ہاتھ پکڑنے کو موجود ہے اُس کے ذریعہ سے بندو بست کرا سکتا ہے، ہاں اگر یہ صورت بھی ناممکن ہوتی اور مفسدوں کا خوف حد مجبوری تک پہنچا تا توحالت اکراہ تھی اس وقت اس پر مواخذہ نہ ہوتا ۔
بالجملہ دوسروں کو حکم کرنا ان کی سرکشی وفتنہ پردازی کے وقت مطلقاً ساقط ہو جاتا ہے كما نص عليه في الهندية و غیرھا
اور خود عمل کرنا اس وقت ساقط ہو گا جب یہ بذریعہ حکومت بھی بندو بست نہ کر سکے اور حقیقی مجبوری ہو کر استطاعت اصلا نہ رہے۔
مزید پڑھیں:آذان سنت ہے یا واجب؟
حکومت کے ذریعے بندوبست کرنے کی قدرت رکھنے کے با وجود ) مجرد (صرف) خوف یا کاہلی یا خودداری یا رورعایت یانی تہذیب یا صلح کل کی پالیسی سے اتباع شرع چھوڑ بیٹھنا جائز نہیں ہو سکتا۔
اسے یوں خیال کریں کہ مفسدین آج اس امر کے لئے کہتے ہیں کل کو اگر انہوں نے خود نماز پر فتنہ اٹھایا تو کیا نماز بھی چھوڑ دے گا نہیں نہیں بلکہ اس پر خیال کرے کہ مفسدوں نے کہا کہ اپنا مکان خالی کر دو ورنہ ہم فساد کرتے ہیں یا اپنی جائداد کا ہبہ نامہ لکھ دوور نہ ہم فتنہ اٹھاتے ہیں ( تو ) اس وقت اُن کا کچھ بندو بست کرے گا استغاثہ کرے گا یا چپکے سے جائدادو مکان چھوڑ بیٹھے گا، جو جب کرے گا وہ اب کرے اور اتباع احکام شرع کو مکان و جائداد سے ہلکا نہ جانے ، ہاں دوسروں کے سر چڑھنے اور فتنہ فساد کے اٹھانے کی اجازت نہیں ہو سکتی،
اللہ تعالیٰ فرماتا
﴿وَالْفِتْنَةُ اشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ )
ترجمہ فتنہ قتل سے بدتر ہے۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 406

READ MORE  Fatawa Rizvia jild 05, Fatwa 274
مزید پڑھیں:حضور ﷺ کے زمانے میں جمعہ کی آذانیں کہاں ہوتی تھیں؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top