سنتیں اور نوافل گھر میں پڑھنا افضل ہے یا مسجد میں؟
: سوال
سنتیں اور نوافل گھر میں پڑھنا افضل ہے یا مسجد میں؟ اور سور عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی عبادت کس طرح تھی ؟
: جواب
تراویح وتحيۃالمسجد کے سوا تمام نوافل سنن را تبہ ہوں یا غیر را تبہ، مؤکدہ ہوں یا غیر مؤکدہ گھر میں پڑھنا افضل اور باعث ثواب اکمل ۔ رسول اللہ صل اللہ تعالی علیہ و سلم فرماتے ہیں ” عليكم بالصلوة في بيوتكم فان خير صلوة المرء في بيته الالمكتوبة”تم پر لازم ہے گھروں میں نماز پڑھنا کہ بہتر نماز مردکیلئے اس کے گھر میں ہے سو افرض کے۔
(صحیح مسلم ، ج 1 ، ص 266، نور محمدا صح المطابع، کراچی )
اور فرماتے ہیں ”صلوة المرء في بيته افضل من صلاته في مسجدي هذا الا المكتوبة ”نماز مرد کی اپنے گھر میں میری اس مسجد میں اس کی نماز سے بہتر ہے مگر فرائض ۔
(سنن ابود اوؤد، ج 1 ،ص 149، آفتاب عالم پریس، لاہور )
اور خود عادت کریمہ سید المرسلین کی اسی طرح تھی۔ احادیث صحیحہ سےحضور والا کا تمام سنن کا شانہ فلک آستانہ میں پڑھنا ثابت ۔ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم گھر میں چار رکعت ظہر سے پہلے پڑھتے پھر باہر تشریف لے جاتے اور لوگوں کو نماز پڑھاتے پھر گھر میں رونق افروز ہو کر دور کعتیں پڑھتے ، اور مغرب کی نماز پڑھ کر گھر میں جلوہ فرما ہوتے اور دو رکعتیں پڑھتے ، اور عشا کی امامت کر کے گھر میں آتے اور دور کعتیں پڑھتے ، جب صبح چمکتی دور رکعتیں پڑھ کر باہر تشریف لے جاتے اور نماز فجر پڑھاتے۔
(صحیح مسلم ، ج 1 بل،ص 257 ، نور محمد اصح المطابع، کراچی )
مزید پڑھیں:تہجد ادا کرنے والا وتر بعد تراویح پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟
اسی طرح سنن جمعہ کا مکان جنت نشان میں پڑھنا، صحیحین میں مروی زمانہ سید نا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ میں لوگ مغرب کے فرض پڑھ کر گھروں کو لوٹ جاتے یہاں تک کہ مسجد میں کوئی شخص نہ رہتا گویا وہ بعد مغرب کچھ پڑھتے ہی نہیں۔ سید العالمین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نےلوگوں کو دیکھا کہ مغرب کے فرض پڑھ کر مسجد میں سنتیں پڑھنے لگے ارشاد فرمایا ” یہ نماز گھر میں پڑھا کرو”۔
(سنن ابو داؤد ، ج 1 ،ص 184 ، آفتاب عالم پریس، لاہور )
گا ہے ( کبھی کبھی ) اگر ( حضورصلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو) بعض سنن مسجد میں پڑھنے کا اتفاق ہوا تو علماء فرماتے ہیں وہ کسی عذر و سبب سے تھا۔ مع هذا ترك احیاناً ( کبھی کبھی ترک کرنا ) منافی سنیت و استحباب نہیں بلکہ اس کا مقر رومؤ کدہے کہ مواظبت محققین کے نزدیک امارت و جوب ( واجب ہونے کی علامت ہے )۔ علاوہ بریں اگر بالفرض رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ سلم نے دائماً سب سنتیں مسجد ہی میں پڑھی ہوتیں، تاہم بعد اس کے کہ حضور ہم سے ارشاد فرما چکئے” فرضوں کے سوا تمام نماز یں تمہیں گھر میں پڑھنی چاہئیں”اور فرمایا ”ماورائے فرائض اور نمازیں گھر میں پڑھنا مسجد مدیہ طیبہ میں پڑھنے سے زیادہ ثواب رکھتا ہے” بلکہ مسجد میں پڑھتے دیکھ کر وہ ارشاد فرمایا کہ ”نماز گھروں میں پڑھا کرو ” كما مر كل ذلك ( جیسا کہ یہ سب کچھ پیچھے گزرا ہے ) تو ہمارے لئے بہتر گھر ہی میں پڑھنے میں رہے کہ قول فعل پر مرجح ( ترجیح والا) ہے اور ان احادیث میں نماز سے صرف نوافل مطلقہ مراد نہیں ہو سکتی کہ ماورائے فرائض میں سنن بھی حادیث میں نماز مخص داخل۔۔ اسی طرح فقہاء بھی عام حکم دیتے اور نوافل کی تخصیص نہیں کرتے۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 410 تا 414

READ MORE  Fatawa Rizvia jild 02, Fatwa 42
مزید پڑھیں:کیا نوافل اور سنن گھر میں پڑھنا روافض کے مشابہ ہے؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top