:سوال
:ایک شخص ایک مسجد کا امام ہے، وہ درج ذیل طریقوں سے روزی حاصل کرتا ہے
(1)
مردہ نہلا کر اس کی اجرت لینا۔
(۲)
سوم میں قرآن مجید پڑھنا اور نا خواندہ لوگوں سے قرآن مجید پڑھوانا اور اس کی اجرت لینا۔
(۳)
مردے کے کپڑے وغیرہ لینا اور فروخت کرنا۔
(۴)
اور سود کھانا۔
اس کے پیچھے نماز جائز ہے یا نا جائز ؟
:جواب
سود لینا گناہ کبیرہ ہے، یوں ہی جس نا جائز طریقہ سے روزی حاصل کی جائے وہ یا تو سرے سے خود ہی کبیرہ ہو گا یا بعد عادت کے کبیرہ ہو جائے گا۔ نا خواندہ (ان پڑھ ) لوگوں سے پڑھوا کر اُجرت لیتا ہے کے معنی سائل نے یہ بیان کیا کہ بے پڑھوں کو بلا لاتا ہے اور براہ فریب اُن کی قرآن خوانی ظاہر کر کے اجرت لیتا ہے یہ صورت خود کبیرہ کی ہے اور تلاوت قرآن کریم پر اجرت لینا ہی نا جائز ہے۔ اور مردے کو نہلانے یا اٹھانے یا قبر کھودنے کی اجرت لینے میں دو صورتیں ہیں اگر یہ فعل اسی شخص پر موقوف نہ ہو اور لوگ بھی ہیں کہ یہ نہ کرے تو وہ کر سکتے ہیں جب تو ان پر اجرت لینی جائز ہے اور اگر خاص یہی شخص یا جنازہ اٹھانے کو یہی دو چار اشخاص ہیں کہ یہ نہ کریں تو کام نہ ہو گا اُجرت لینی حرام ہے۔
اور مردے کے کپڑے وغیرہ جو بہ نیت تصدق دیئے جاتے ہیں اگر یہ لینے والا محتاج ہے یا غنی ہے اور دینے والے کو اس کا غنی ہونا معلوم ہے یا وہاں بطور رسم امام نماز یا ملائے مسجد کو یہ چیزیں دی جاتی ہیں خواہ محتاج ہو یا نہیں تو لینا جائز ہے اگر چہ غنی کے لئے کراہت سے خالی نہیں ، اور اگر یہ شخص غنی ہے اور دینے والا محتاج کو دینا چاہتا ہے اور اس نے اپنے آپ کو محتاج جتا کر اس سے لے لیئے تو حرام ہے۔ اور گناہ کبیرہ خواہ ابتداء کبیرہ ہو یا بعد عادت کبیرہ ہو جائے موجب فسق ہے، اور فاسق معلن کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ، اسے امام بنانا گناہ ہے۔
(ج6،ص485)
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 485