حنفی شافعی امام کی اقتداء میں اسکی مطابقت کرے گا یا نہیں؟
:سوال
اگر خفی شافعی امام کے پیچھے نماز پڑھے تو آمین بالجہر ( بلند آواز سے آمین کہنا ) رفع یدین اور قومہ میں ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگنے میں امام کی متابعت کرے یا نہ کرے؟
:جواب
جب یہ اصول ( جواو پر والے سوال میں مذکور ہوئے ) معلوم ہو لئے تو اُن تینوں فروع کا حکم بھی انھیں سے نکل سکتا ہے رکوع وغیرہ میں رافعہ یدین ہمارے ائمہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے نزدیک منسوخ ہو چکا ہے اور منسوخ پر عمل نا مشروع ، تو اس میں متابعت نہیں ۔ قومہ میں ہاتھ اٹھاکر دعا مانگنا شافعیہ کے نزد یک نماز فجر کی رکعت اخیرہ میں ہمیشہ وتر کی تیسری میں صرف نصف اخیر شہر رمضان المبارک میں ہے کہ وہ ان میں دعائے قنوت پڑھتے ہیں، قنوت فجر تو ہمارے ائمہ کے نزدیک منسوخ یا بدعت، بہر حال یقینا نا مشروع ہے لہذا اس میں پیروی ممنوع ، اور جب اصل قنوت میں متابعت نہیں تو ہاتھ اٹھانے میں کہ اس کی فرع ہے اتباع کے کوئی معنی نہیں مگر اصل قو مہ رکوع فی نفسہ مشروع ہے لہذاوہ جب تک نماز فجر میں قنوت پڑھنے مقتدی ہاتھ چھوڑے چپکا کھڑا رہے۔
اور نماز وتر میں اگر شافعی امام کے پیچھے اقتدا باقی رہے ( کہ وہ وتر کے دوٹکڑے کرتے ہیں پہلے تشہد پر سلام پھیر کر خیر رکعت اکیلی پڑھتے ہیں اگر امام نے ایسا کیا جب تو رکعت قنوت آنے سے پہلے ہی اس کی اقتدا قطع ہوگی اب نہ وہ امام نہ یہ مقتدی ، نہ اس کے وتر صحیح کہ اس کی وسط نماز میں عمد اسلام واقع ہوا )تو اگر چہ شافعیہ قنوت قومہ میں پڑھتے ہیں اور ہمارے مذہب میں اس کامحل قبل رکوع، مگر ہمارے علماء نے تمام متون و شروح وفتاوی میں مقتدی کو حکم دیا کہ یہاں قنوت میں متابعت کرے، اور اس کا منشاء وہی کہ اسے بالکل نا مشروع نہیں ٹھہراتے ۔
مزید پڑھیں:جو مولوی حافظ ہو کر روزہ نہ رکھے اس کے پیچھے نماز کا حکم؟
رہا یہ کہ مقتدی اس حالت میں اتباع امام کرے یا اتباع مذہب امام یعنی ہاتھ باندھے یا چھوڑے یا دعا کی طرح اٹھائے ، کیا کرنا چاہئے ، اس کی تصریح نظر فقیر سے نہ گزری، نہ اپنے پاس کی کتب موجودہ میں اس سے تعرض پایا، ظاہر یہ ہے کہ مثل قیام ہاتھ باندھے گا کہ جب اسے قنوت پڑھنے کا حکم ہے تو یہ قیام ذی قرار و صاحب ذکر مشروع ہوا اور ہر ایسے قیام میں ہاتھ باندھنا نقلا و شرعاً سنت اور عقلاً و عرفا ادب حضرت اور ترک سنت میں امام کی پیروی نہیں۔ یوں ہی ہمارے ائمہ کا اجماع ہے کہ آمین میں سنت اخفا ہے اور اس کی بجا آوری میں امام سے کسی واجب فعلی میں مخالفت نہیں تو کیوں ترک کی جائے۔
والہذا حرمین طیبین زادهما الله تعالى شرفاً و تكريماً میں مرئی و مشاہد( دیکھا گیا )ہے کہ ایک امام کے پیچھے چاروں مذہب والے نماز پڑھتے ہیں اور ان امور میں سب اپنے مذہب پر عمل کرتے ہیں حنفی امام خفی کے پیچھے زیر ناف ہاتھ باندھے ہے اُس کے دہنے بازو پر شافعی سینے پر ہاتھ رکھے، بائیں بازو پر مالکی ہاتھ کھولے ہوئے ہے کوئی کسی پر انکار نہیں کرتا، اور کیوں ہو کہ بحمد اللہ ہم چاروں حقیقی بھائی ایک ماں باپ کی اولاد ہیں باپ ہمارا اسلام ماں ہماری سنت سنیہ سید الانام علیہ وعلی آلہ افضل الصلوة والسلام۔ انکار تو ان گمراہوں پر ہے جو تقلید ائمہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو معاذ اللہ شرک و حرام بتاتے اور مذاہب حقہ را شدہ اہل حق کا نام چورا ہہ رکھتے ہیں۔
رہا یہ کہ ایسی صورت میں شافعی کو کیا چاہئے، یہ علماء شافعیہ سے پو چھا جائے۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 409 تا 415

READ MORE  خطاب یافتہ مسلمان کے خطبہ و نماز کو حرام کہنا کیسا؟
مزید پڑھیں:حنفی کا شافعی کی اقتداء کرنا کیسا ہے؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top