صلوۃ غوثیہ کی حقیقت کیا ہے؟
:سوال
زید کہتا کہ صلوة غوشیہ کے بارے میں ان علماء کی کتابوں میں جو کچھ لکھا ہے وہ ان کا اپنا لکھا ہوا نہیں بلکہ کسی اور نے ان کتب میں الحاق کیا ہے۔ جیسا کہ شیخ اکبر اور امام شعرانی کی کتب میں ہوا ہے۔
: جواب
بے دلیل دعوی الحاق محض مردو دور نہ تصانیف ائمہ سے امان اُٹھ جائے اور نظام شریعت د رہم و برہم نظر آئے جو سند پیش کیجئے مخالف کہہ دے یہ الحاقی ہے، چلئے تمسک و استناد کا دروازہ ہی بند ہو گیا ، بیہات کیا بزور زبان کچھ کہ دینا، قابل قبول ہو سکتا ہے، حاشا و کلا ادعائے بے دلیل مطرود و ذلیل ، ہاں ہم کو مسلم کے بعض کتابوں میں بعض الحاق بھی ہوئے مگر اس سے ہر کتاب کی ہر عبارت تو مطروح یا مشکوک نہیں ہو سکتی کسی خاص عبارت کی نسبت یہ دعوی زنہار مسموع نہیں جب تک بوجہ وجیہ اس میں الحاق ثابت نہ کر دیں۔
جس کے لئے امثال مقام میں صرف دو طریقے متصور : ایک تو یہ کہ اس کتاب کتاب کے صحیح معتمد ، عمدہ قدیم نسخے نے اس عبارت سے خالی ملیں یا خاص مصنف کا اصل مسودہ پیش کیا جائے جس میں اس عبارت کا نشان نہ ہو، حضرت جناب شیخ اکبر و امام شعرانی قدس سرہما کی تصانیف میں الحاق یونہی ثابت ہوا ۔ امام شعرانی رحمہ اللہ علیہ واقح الانوار میں فرماتے ہیں” قدم علينا الاخ العالم الشريف شمس الدين السيد محمد ابن السيد أبي الطيب المدنى المتوفى ٥٩٥٥ خمس وخمسين وتسعمائة فذاكرته في ذلك فاخرج في نسخة من الفتوحات التي قابلها على النسخة التي عليها حط شيخ محى الدين نفسه بقونية فلم ارفيها شيئا مما توفقت فيه و حذفته فعلمت ان النسخ التي في مصر ان كلها كتبت من النسخة التي دسوا على الشيخ فيها ما يخالف عقائد اهل السنة والجماعة كما وقع له ذلك في كتاب الفصوص وغیرہ الح ”۔
مزید پڑھیں:کیا بسم اللہ ہر سورت کے ساتھ نازل ہوئی؟
یعنی ہمارے دوست عالم شریف سید شمس الدین محمد بن سید ابوالطیب مدنی جن کی وفات ۱۹۵۵ میں ہوئی ہمارے یہاں آئے میں نے فتوحات شیخ اکبر قدس سرہ ،کا تذکرہ کیا انہوں نے ایک نسخہ فتوحات نکالا جسے انہوں نے اس نسخے سے مقابلہ کیا تھا جو شہر قونیہ میں کہ شیخ اکبر قدس سرہ ،کا وطن ہے خاص شیخ قدس سرہ ،کے دستخط شریف سے مزین ہے اس نسخے میں میں نے کہیں ان عبارتوں کا نشان نہ پایا جن میں مجھے تر در تھا اور میں نے فتوحات کے انتخاب میں قلم انداز کر دی تھیں تو مجھے یقین ہوا کہ اب جس قدر نسخے مصر میں سب اسی نسخےسے نقل ہوئے ہیں جس میں لوگوں نے عقائد اہلسنت و جماعت کے خلاف عبارتیں شیخ پر افترا کر کے ملادی ہیں جیسا کہ ان کی فصوص وغیرہ کے ساتھ بھی یہی واقع ہوا۔
( کشف الظنون ، ج 2، ص 1238 ،مكتبۃ المثنی ، بغداد )
اب کلام امام شعرانی کا حال سنئے، خود امام موصوف رحمہ اللہ تعالی علیہ میزان میں فرماتے ہیں” وقع لي ذلك من بعض الاعداء فانهم دسوا في كتابي المسمى بالبحر المورود في المواثيق والعهود، امور اتخالف ظاهر الشريعة و داروبها فتى الجامع الأزهر وغيره وحصل بذلك فتنة عظيمة وما حمدت الفتنة حتى ارسلت لهم نسختي التي عليها خطوط العلماء فقتشها العلماء فلم يجدوا فيها شيئا مما يخالف ظاهر الشريعة ممادسة الأعد ، والله تعالى يغفر لهم ويسامحهم ” یعنی مجھے یہ واقعہ بعض اعداد کے ساتھ پیش آچکا ہے انہوں نے میری کتاب” البحر المورو دفی المواثيق والعهود ”میں خلاف شرع باتیں الحاق کر دیں اور ا سے جامع از ہر وغیرہ میں لئے پھرے اور اس کے سبب بڑا فتنہ اٹھا اور فرو نہ ہوا یہاں تک کہ میں نے ان کے پاس اپنا نسخہ جس پر علما کے دستخط تھے بھیج و یا اہل علم نے تلاش کی تو اس میں وہ امور مخالفہ شریعت جو دشمنوں نے ملادیئے تھے اصلا نہ پائے اللہ تعالی ان کی مغفرت کرے اور درگزر فرمائے۔
خیرا ایک طریقہ تو ثبوت الحاق کا یہ ہے۔
دوسرے یہ مصنف کا امام معتمد و عالم متدین ،مستند ہونا معلوم ہے اور یہ کلام کہ بے تو اتر حقیقی اس کی طرف نسبت کیا گیا۔
مزید پڑھیں:تراویح میں ختم قرآن کے لیے کتنی بار بسم اللہ پڑھیں گے؟
(۱)
صریح معصیت یا بد مذہبی و ضلالت جس میں اصلا تاویل و توجیہ کی گنجائش ہی نہیں تو اس وجہ سے کہ علماءتو علماء عام اہل اسلام کی طرف بے تحقیق و تو اتر و ثبوت قطعی کسی کبیرہ کی نسبت مقبول نہیں” كما نص عليه الإمام الأجل حجة الإسلام محمد الغزالي قدس سره العالي في الاحياء ( جیسا کہ امام غزالی قدس سرہ ، نے” احیاء العلوم” میں اس کی تصریح کی ہے) رد کر دیں گے اور تحسینا للظن (ان سے حسن ظن کرتے ہوئے ) الحاقی کہیں گے۔
(۲)
اور اسی سے ملحق ہے، بات کا ایسا سخیف ورذیل ہونا کہ کسی طرح عقل سلیم اس امام عظیم سے اس کا صد ور منظور نہ
کرے۔
(۳)
اور اسی قبیل سے ہے وہ عبارت جس میں کسی طائفہ ذائقہ کے لئے کوئی غرض فاسد ہو اور امام مصنف اس سے بری اور جابجا خود اس کا کلام اس غرض مردود کے خلاف پر شاہد، جیسے بعض خدا نا ترسوں کا امام حجتہ الاسلام محمد غزالی قدس سرہ العالی کی طرف معاذ اللہ کلمات ندمت امام الائمه مالک الازمہ کاشف الغمہ سراج الامہ سید نا امام اعظم رضی اللہ تعالی نسبت کرنا حالانکہ ان کی کتب متواتر و احیاء وغیرہ مناقب امام کی شاہد عدل ہیں۔ اور مثل آفتاب روشن و بے نقاب کہ مانحن فیہ میں ( جس مسئلہ میں ہم بات چیت کر رہے ہیں اس میں ) ان صورتوں سے کوئی شکل نہیں و الحمد لله رب العلمین ۔ اگر منکر بہجۃ الاسرار شریف کے نسخ قدیمہ صحیحہ معتمدہ اس روایت سے خالی دکھا دیتا یا زبانی انکار کے سوا کوئی دلیل معقول قابل قبول ارباب عقول ، اس کے یقینی ضلالت و مخالف عقیدہ اہل سنت ہونے پر قائم کر لیتا تو اس وقت دعوی الحاق زیب دیتا۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 576 تا 580

READ MORE  Fatawa Rizvia jild 03, Fatwa 101
مزید پڑھیں:کیا صلوۃ غوثیہ قرآن وحدیث کے خلاف ہے؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top