قیلولہ کی وجہ سے ظہر کی جماعت ترک کرنا کیسا؟
: سوال
ایک شخص ہمیشہ قیلولہ ( دن میں آرام ) اس طرح کرتا ہے کہ اس کی ظہر کی جماعت اولی ترک ہو جاتی ہے اورعذر اس کا خوف فوت تہجد ہے جائز ہے یا نہیں؟
: جواب
اس مسئلہ میں جواب حق اور حق جواب یہ ہے کہ عذر مذکور فی السؤال ( سوال میں مذکور عذر ) سرے سے بیہودہ سراپا اہمال ہے وہ زعم ( گمان ) کرتا ہے کہ سنت تہجد کا حفظ و پاس اسے تفویت جماعت ( جماعت فوت کرنے ) پر باعث ہوتا ہے اگر تہجد بروجہ سنت ادا کرتا تو و تا تو وہ خود فوت واجب سے اس کی محافظت کرتا نہ کہ الٹا فوت کا سبب ہوتا ، اللہ عز و جل فرماتا ہے” ان الصلوة تنهى عن الفحشاء والمنكر ”بے شک نماز بے حیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے۔ سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں ” عليكم بقيام الليل فأنه داب الصلحين قبلكم وقربة إلى الله تعالى ومنهاة عن الاثم وتكفير للسيات ومطردة للداء عن الجسد” تہجد کی ملازمت کرو کہ وہ اگلے نیکوں کی عادت ہے اور اللہ عز وجل سے نزدیک کرنے والا اور گناہ سے روکنے والا اور برائیوں کا کفارہ اور بدن سے بیماری دور کرنے والا ۔
(جامع الترمذی ، ج 2 ،ص 194 ، امین کمپنی کتب خانہ رشید یہ ،دیلی )
تو فوت جماعت کا الزام تہجد کے سر رکھنا قرآن وحدیث کے خلاف ہے اگر میزان شرع مطہر ( شرع مطہر کا ترازو) لے کر اپنے احوال وافعال تو لے تو کھل جائے کہ یہ الزام خود اسی کے سرتھا بھلا یہ تجد و قیلولہ وہ ہیں جو اس نے خود ایجاد کئے جب تو انہیں تقویت شعار عظیم اسلام ( اسلام کے عظیم شغار کو فوت کرنے )کے لئے کیوں عذر بناتا ہے اور اگر وہ ہیں جو حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے قولا و فعلاً منقول ہوئے تو بتائیے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے کب ایسے تجد و قیلولہ کی طرف بلایا جن ۔ سے جماعت فریضہ فوت ہو، کیا قرآن و حدیث ایسے ہی تہجد کی ترغیب دیتے ہیں؟ کیا سلف صالح نے ایسے ہی قیام لیل کئے ہیں؟ یا ہذا (اے شخص ) سنت ادا کیا چاہتا ہے تو بروجہ سنت ادا کر، یہ کیا کہ سنت لیجئے اور واجب فوت کیجئے۔
ذرا بگوش ہوش ( ہوش کے کانوں سے ) سن اگر چہ حق تلخ ( کڑوا) گزرے ، وسوسہ ڈالنے والے نے تجھے یہ جھوٹا بہانہ سکھایا کہ اسے مفتیان زمانہ پر پیش کرے جس کا خیال ترغیبات تجد کی طرف جائے تجھے تفویت جماعت کی اجازت دے جس کی نظر تاکیدات جماعت پر جائے تجھے ترک تہجد کی مشورت دے کہ من ابتلی بیلیتین اختار ا هو نهما ( دو بلاؤں میں مبتلا شخص ان دو میں سے آسمان کو اختیار کرے ) بہر حال مفتیوں سے ایک نہ ایک کے ترک کی دستاویز نقد ہے مگر حا شا خدام فقہ و حدیث نہ تجھے تفویت واجب کا فتوی دیں گے نہ عادی تہجد کو ترک تہجد کی ہدایت کر کے ارشاد حضور سید الا سیا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم” يا عبد الله لا تكن مثل فلان كأن يقوم الليل فترك قیام اللیل ”ترجمہ: اے عبداللہ! فلاں شخص کی طرح نہ ہو جو رات کا قیام کرتا تھا مگر اب اس نے ترک کر دیا۔
(صحیح البخاری ، ج10،ص 150 ،قدیمی کتب خانہ، کراچی)
مزید پڑھیں:بغیر اذان واقامت کے محراب سے ہٹ کر جماعت ثانیہ قائم کرنا کیسا ہے؟
کا خلاف کریں گے۔ یہ اس لئے کہ وہ بتو فیقہ عزوجل (اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ) حقیقت امر سے آگاہ ہیں ان کے یہاں عقل سلیم ونظر قویم دو عادل گواہ شہادت دے چکے ہیں کہ تہجد و جماعت میں تعارض نہیں ان میں کوئی دوسرے کی تفویت کا داعی نہیں بلکہ یہ ہوائے نفس شریر ( نفس شریر کی خواہش ) و سوئے طرز تد بیر ( برے طریقہ تدبیر ) سے ناشی ( پیدا) ہوا۔ يا هذا (اے شخص ) اگر تو وقت جماعت جاگتا ہوتا اور طلب آرام پڑا رہتا ہے جب تو صراحۃ آثم ( گناہ گار ) و تارک واجب ، اور اس عذر باطل میں مبطل و کا ذب ہے۔ اور اگر ایسا نہیں تو اپنی حالت جانچ کہ یہ فتنہ خواب ( سونے کا فتنہ ) کیونکر جاگا اور یہ فساد عجاب ( عجیب فساد ) کہاں سے پیدا ہو اس کی تدبیر کر، کیا تو قیلولہ ایسے تنگ وقت کرتا ہے کہ وقت جماعت نزدیک ہوتا ہے نا چار ہو شیار نہیں ہونے پاتا
یوں ہے تو اول وقت خواب کر ، اولیائے کرام قدسنا اللہ تعالی باسرار ہم نے قیلولہ کے لئے خالی وقت رکھا ہے جس میں نماز و تلاوت نہیں یعنی ضحوہ کبری سے نصف النہار تک، وہ فرماتے ہیں چاشت وغیرہ سے فارغ ہو کر خواب ( نیند ) خوب ہے کہ اس سے تہجد میں مدد ملتی ہے اور ٹھیک دو پہر ہونے سے کچھ پہلے جاگنا چاہئے کہ پیش از زدال وضو وغیرہ سے فارغ ہو کر وقت زوال کہ ابتدائے ظہر ہے ذکر و تلاوت میں مشغول ہو۔ ظاہر ہے کہ جو پیش از زوال ( زوال سے پہلے ) بیدار ہو لیا اس سے فوت جماعت کے کوئی معنی ہی نہیں ، کیا اس وقت سونے میں تجھے کچھ عذر ہے، اچھا ٹھیک دوپہر کو سومگر نہ اتنا کہ وقت جماعت آجائے ، ایک ساعت قلیلہ قیلولہ بس ہے، اگر طول خواب سے خوف کرتا ہے ( تو یہ تدابیر کر کہ )
(1)
تکیہ نہ رکھ بچھونا نہ بچھا کہ بے تکیہ و بے بستر سونا بھی مسنون ہے۔
(2)
سوتے وقت دل کو خیال جماعت سے خوب متعلق رکھ کہ فکر کی نیند غافل نہیں ہوتی ۔
(3)
کھانا حتی الامکان علی الصباح کھا کہ وقت نوم ( نیند کے وقت ) تک بخارات طعام فرو ختم ) ہولیں اور طول منام ( لمبی نیند ) کے باعث نہ ہوں ۔
مزید پڑھیں:جماعت کے دوران مسجد میں دوسری جماعت قائم کرنا کیسا؟
(4)
سب سے بہتر علاج تقلیل غذا ( کم غذا) ہے، سید المرسلین صلی الله تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں ” ما ملا ادمى وعاء شراً من بطنه بحسب ابن آدم اكلات يقمن صلبه فأن كان لا محاله فثلث لطعامه وثلث لشرابه وثلث لنفسه ”آدمى نے کوئی برتن پیٹ سے بدتر نہ بھرا آدمی کو بہت ہیں چند لقمے جو اس کی پیٹھ سیدھی رکھیں اور اگر یوں نہ گزرے تو تہائی پیٹ کھانے کے لئے تہائی پانی تہائی سانس کو رکھے۔
(جامع الترمذی ، ج 2 ،ص 60 ،امین کمپنی کتب خانہ ،رشیدیہ،دہلی )
، پیٹ بھر کر قیام لیل کا شوق رکھنا بانجھ سے بچہ مانگنا ہے، جو بہت کھائے گا بہت بنے گا ، جو بہت پئے گا بہت سوئے گا، جو بہت سوئے گا آپ ہی یہ خیرات و برکات کھوئے گا حدیث میں آیا حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے فرمایا أن كثرة الاكل شؤم ” بیشک بہت کھانا منحوس ہے ۔
(شعب الایمان ، ج 5 ،ص 32 ،مطبوعہ دار الكتب العلميہ ، بیروت )
(5)
یوں بھی نہ گزرے تو قیام لیل میں تخفیف کرد در کعتیں خفیف و تام بعد نماز عشاء ذرا سونے کے بعد شب میں کسی وقت پڑھنی اگر چہ آدھی رات سے پہلے ادائے تہجد کو بس ہیں، مثلاً نو بجے عشا پڑھ کر سور ہا دس بجے اٹھ کر دور کعتیں پڑھ لیں تہجد ہو گیا ، حدیث میں ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں” يحسب احدكم اذا قام من الليل يصلى حتى يصبح انه قدتهجد انما التهجد المرء يصلى الصلوة بعد رقدة ” تم میں کسی کا یہ گمان ہے کہ رات کو اٹھ کر صبح تیک نماز پڑھے جبھی تہجدہو تہجد صرف اس کا نام ہے کہ آدمی ذرا سو کر نماز پڑھے۔
(المعجم الکبیر، ج 3 ،ص 225 ،مکتبہ فیصلیہ ، بیروت )
مزید پڑھیں:امام کی غیر موجودگی میں کسی اور کو امام بنانا کیسا؟
(6)
سوتے وقت اللہ عز و جل سے توفیق جماعت کی دعا اور اس پر سچا تو کل مولی تبارک و تعالیٰ جب تیرا حسن نیت و صدق عزیمت دیکھے گا ضر ور تیری مدد فرمائے گا۔ ”من يتوكل على الله فهو حسبه’ ‘ ترجمہ: جواللہ تعالیٰ پر توکل و بھروسہ کرتا ہے اس کے لئے اللہ کافی ہے۔
(7)
اپنے اہل خانہ وغیر ہم سے کسی معتمد کو متعین کر کہ وقت جماعت سے پہلے جگادے۔
ان ساتوں تدبیروں کے بعد کسی وقت سوئے ان شاء اللہ تعالیٰ فوت جماعت سے محفوظ ہوگا اور اگر شاید اتفاق سے کسی دن آنکھ نہ بھی کھلی اور جگانے والا بھی بھول گیا یا سورہا ۔تو یہ اتفاقی در مسموع ہوگا اور امید ہے کہ صدق نیت و حسن تدبیر پر ثواب جماعت پائے گا۔
کیا تیری مسجد میں بہت اول وقت جماعت کرتے ہیں کہ دو پہر سے اس تک سونے کا وقفہ نہیں جب تو سب وقتوں سے چھوٹ گیا سوکر پڑھی یا پڑھ کر سوئے بات تو ایک ہی ہے جماعت پڑھ ہی کر سوئے کہ خوف فوت اصلا نہ رہے جیسے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم روز جمعہ کیا کرتے تھے۔ غرض یہ تین صورتیں ہیں پیش از زوال سو اٹھنا ، بعد جماعت سونا ان میں کوئی خدشہ ہی نہیں ، اور تیسری صورت میں وہ سات تدبیریں ہیں رب عز و جل سے ڈرے اور بصدق عزیمت ان پر عمل کرے پھر دیکھیں کیونکر تہجد تفویت جماعت کا موجب (سبب) ہوتا ہے، بالجملہ مہر نیمروز ( نصف دن کے سورج )کی طرح روشن ہوا کہ عذر مذکور یکسر مدفوع و محض نا مسموع ، جماعت و تہجد میں اصلاً تعارض نہیں کہ ایک کا حفظ دوسرے کے ترک کی دستاویز کیجئے اور بوجہ تعذر جمع ( دونوں کے اجتماع کے عذر کی وجہ سے ) راہ ترجیح لیجئے۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 85 تا 91

READ MORE  آمین با آواز بلند کہنا درست ہے یا نہیں؟
مزید پڑھیں:تہجد اور ظہر کی جماعت میں ترجیح
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top