:سوال
ایک خاتون نے امام اہلسنت علیہ الرحمہ سے پوچھا) میر از یور (نصاب کی مقدار سے زیادہ) شوہر نے فروخت کر ڈالا اور روپیہ تجارت میں لگایا بیچنا مجھ کومنظور نہ تھامگرمجبوری تھی کہ روز گار نہ تھا، شوہر کی بیکاری تھی، ان پیسوں سے شوہر نے تجارت کی، مالک تجارت شوہر ہی سمجھا جاتا تھا ، اس کی آمدن گھر میں سب بال بچوں کے خرچ میں صرف ہوتی تھی، کبھی ذکر درمیان نہ آیا کہ میرے زیور کا روپیہ ہے کیونکہ معاملہ ایک سمجھا جاتا تھا، اب کیا مجھ پر اس زیور کی یا اس کے پیسوں کی زکوۃ بنے گی؟
:جواب
اگر زیور تمھاری اجازت سے بیچ کر شوہر نے اپنی تجارت میں لگایا اگر چہ وہ اجازت اسی مجبوری سے تھی کہ شوہر کی بیکاری ہے تو اس کی قیمت شوہر پر قرض رہی اور اگر بے تمھاری اجازت کے بطور خود بیچ ڈالا اگر چہ تم نے سکوت کیا تو حکم غصب میں تھا، بہر حال سال بسال اُس کی زکوۃ تم پر واجب ہوتی رہی اور واجب ہوا کرے گی ، جب تک نصاب باقی ہے
مگر اس زکوۃ کا دینا ئم پر واجب نہ ہوگا جب تک شوہر اس میں سے بقدر گیارہ روپے سوا تین آنہ کچھ کوڑیاں کم کے (اس وقت کے نصاب 56 روپے کا ٹس یعنی پانچواں حصہ) تمھیں ادا نہ کرے، جس وقت اس قدر اس میں سے تمھارے قبضہ میں آئے گا اُس وقت اس مقدار کا چالیسواں حصہ دینا واجب ہوگا
مزید پڑھیں:لوگوں سے جو روپیہ قرض لینا ہے، اس کی زکوۃ کا کیا حکم ہے؟
اور اگر کچھ قبضہ میں نہ آئے گا تو اس زکوۃ کا ادا کرنا تو واجب نہ ہوگا۔ ہاں اگر تم نے وہ زیور انھیں دے ہی دیا تھا اس کی قیمت کبھی لینے کا خیال نہ تھا تو تم پر اس کی زکوٰۃ واجب ہی نہیں کہ ایسی حالت میں تمھیں استحقاق واپسی نہ رہا جبکہ کسی قرینہ سے شوہر کو مالک کر دینا سمجھا گیا ہو۔ واللہ تعالیٰ اعلم
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 167