:سوال
زید اگر مسافرانہ طور پر کسی مقام پر وارد ہوا اور وہاں اس کا کوئی ایسا شخص شناسا نہ ہو کہ جس کے مکان میں قیام کر سکے اور پابندی جماعت نماز و وضو وغیرہ کسی مسجد میں ٹھہر جائے تو جائز ہے یا نہیں ؟ اور جو شخص زید کو بصورت مذکورہ جبراً مسجد سے نکالے اور کہے کہ یہ مسجد خالد کی ملک ہے اور میں چونکہ ملازم خالد ہوں لہذا مجھے حکم خالد ہے کہ ہماری اجازت کے بغیر کسی کو ہماری مسجد میں نہ رہنے دو، اس صورت حال میں مسجد مذکورہ میں نماز کا کیا حکم ہے؟ اور ایسی مسجد پر مسجد ضرار کی تعریف صادق ہے یا نہیں؟
: جواب
ایسے مسافر کو مسجد میں ٹھہر نا بیشک جائز ہے، خود مسجد اقدس میں حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے عہدِ اقدس میں حکم انور سے اصحاب صفہ رضی اللہ تعالی عنہم قیام پذیر تھے مسجد سے بالجبر اس کا اخراج ظلم ہے۔۔ ہاں نظر بحالات زمانہ بعض مساجد میں اجنبی غیر معروف کا قیام نا مناسب و وجہ اندیشہ ہوتا ہے جیسے صد ہا سال مسجد مدینہ طیبہ کے دروازے بعد عشا بند کر دیتے ہیں اور سوا خدام کے سب لوگ باہر کر دئے جاتے ہیں، اگر واقعی ایسی صورت تھی تو بنرمی ( نرمی سے ) کہنا چاہئے تھا اور مسجد کو خالد کی ملک کہنا ظلم ہے، اللہ عز وجل فرماتا ہے وان المسجد اللہ مسجد یں خالص اللہ کے لئے ہیں۔
(پ 29 سورۃ الجن ، آیت 18)
مزید پڑھیں:مسجد میں وظائف و ذکر بلند آواز سے کرنا کیسا؟
بہر حال اس مسجد میں نماز نا جائز ہونے کی کوئی وجہ نہیں، نہ وہ مسجد ضرار ہو سکتی ہے، یہ جہل محض ہے۔ پھر اگر یہ مسجد اموال وغیرہ سے محل احتیاط مذکور نہیں یا زید مشتبہ نہیں، تو اسے جبراً نکال دینے والے پر لازم ہے کہ اس سے معافی چاہے کہ مسلمان کو بلا وجہ شرعی ایذا دینا بہت سخت ہے (( من اڈی مسلماً فقد اذاني ومن اذاني فقد اذى الله )) ((م) ترجمہ: جس نے کسی مسلمان کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے بلا شبہ اللہ تعالی کو اذیت دی۔
الجامع الصغير ، ج 6، ص 8، دار المعرفة ، بیروت
زید کو چاہئے کہ اگر مسجد میں قیام کرے سونے اور کھانے سے کچھ پہلے اعتکاف کی نیت کر کے کچھ ذکر الہی کر کے کھائے سوئے کہ مسجد میں کھانا سونا معتکف کو بلا خلاف جائز ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 101