: سوال
شیخ نے مرید کو وصیت کی تھی کہ میری قبر کاکل سامان روشنی و قرآن خوانی دلنگر خانہ وغیرہ کا انتظام تم کرنا، چنانچہ مرید نے بمطابق وصیت تمام سامان کیا، کل اخراجات کی کفالت کی ۔ اب سوال یہ ہے کہ لوگ جو چادر و شرینی و نقد و جنس مزار پر چڑھاتے ہیں وہ کس کا حق ہے؟ اس مرید کا کہ جس نے یہ سامان اور اخرجات کئے اور خادم بھی ہے یا فرزند شیخ کا ؟
:جواب
چادر جو مزار پر ڈالی جائے وہ کسی کا حق نہیں نہ اس مرید خادم مزار کا نہ فرزند صاحب مزار کا، نہ وہ وقف ہو بلکہ وہ ڈالنے والے کی ملک پر رہتی ہے جیسے کفن کہ تبرعا کسی نے میت کو دیا ۔۔ باقی اور چڑھاوے اگر چہ وہ چادریں ہی ہوں جو مزار پر نہ ڈالیں نہ اس پر ڈالنے کو دیں بلکہ دیگر نظروں کی طرح سمجھیں ان میں عرف عام یہ ہے کہ خادم مزار ہی ان کا مالک سمجھا جاتا ہے اسی قصد سے لوگ لاتے اور اس کا انتفاع اور تصرف دیکھتے ، جانتے روا رکھتے ہیں اور المعروف کالمشروط (اور معروف مشروط کی طرح ہے ) تو وہ خدمت والا ہی ان کا مالک ہے، تر کہ نہیں کہ فرزند کو جائے اور اس قسم کے چڑھاوے شرع میں کہیں مطلقا منع نہیں، نہ یہ نذور شرعی بلکہ عرف ہے کہ اکابر کے حضور جو کچھ لے جاتے اسے نذر کہتے ہیں جیسے بادشاہ کی نذریں گزریں ، بعض متاخرین نے کہ منع کیا ( وہ ) میت کے لئے منت ماننے کو منع کیا ہے وہ صورت یہاں عام مواقع میں نہیں ، اکثر چڑھاوے منت ہی نہیں ہوتے نہ یہ نذر شرعی نذر ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر9، صفحہ نمبر 534