:سوال
معراج سے پہلے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نماز کس طرح پڑھتے تھے؟
:جواب
ملاحظہ ایات و احادیث سے ظاہر کہ
وہ نماز اسی انداز کی تھی اس میں طہارت ثوب (کپڑوں کے پاک ہونے کی شرط) بھی تھی اللہ تعالی سورۃ المدثر میں فرماتا ہے
و ثیابک فطهرُ
ترجمہ اور اپنے کپڑوں کو پاک کرو
وضو بھی تھا استقبال قبلہ بھی تھا تکبیر تحریمہ بھی تھی اللہ تعالی فرماتا ہے
(وربک فکبر )
ترجمہ اور اپنے رب کی تکبیر کہ
قیام بھی تھا اللہ تعالی فرماتا ہے
يَأَيُّهَا الْمُزمِلُ قم اليْلَ
ترجمہ اے اوڑنے والے رات کو قیام کیا کرو
مزید پڑھیں:کبیرہ گناہ کرنے سے مسلمان کافر ہو جاتا ہے یا نہیں؟
قرات بھی تھی اللہ تعالی سورۃ المزمل میں فرماتا ہے
فَاقْرَ، وُا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ
ترجمہ پس پڑھو جتنا قران میسر ہو سکے
رکو بھی تھا سجود بھی تھا
کما فی حديث ايذاء ابى جهل وغيره من الكفرة، لعنهم الله تعالى، حين صلى رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم عند الكعبة، فرمقوا سجوده، فالقوا عليه ما ألقوا به في قليب بدر ملعونين والحمد لله رب العلمين والحديث معروف في الصحيحين وغيرهما عن ابن مسعود رضی الله تعالی به
ترجمه جیسا کہ اس حدیث میں ہے جس میں ابو جہل اور دیگر کفار تھم اللہ کی ایذا رسانی کا ذکر ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ سلم کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے تو کفار نے اُن کے سجد پر نگاہ رکھی اور آپ پر وہ کچھ ڈال دیا ( یعنی اوجھڑیاں وغیرہ) جس کے بدلے میں بدر کے کنویں میں ملعون کر کے پھینک دیئے گئے ۔ اور یہ حدیث صحیحین وغیرہ میں عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے معروف ہے
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ اقر آمیں فرمایا ہے (و اسجد واقترب ) اور سجدہ کرو اور قرب حاصل کرو۔
جماعت بھی تھی ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا
( وَ طَائِفَةٌ مِنَ الَّذِينَ مَعَگ)
ترجمہ: اور ایک جماعت ان لوگوں کی جو تمہارے ساتھ ہے
و اخرج الشيخان عن ابن عباس رضى الله تعالى عنهما في حديث مجىء الجن اليه صلى الله تعالی علیہ وسلم اول البحث، انهم اتوه صلى الله تعالى عليه وسلم وهو يصلى باصحابه صلاة الفجر،
مزید پڑھیں:کسی گناہ کو حلال سمجھ کر کرنا کفر ہے یا نہیں؟
بخاری و مسلم نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے اس حدیث کی روایت کی ہے جس میں ابتداء وحی کے دوران رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پاس جنات کے آنے کا ذکر ہے۔ اس میں ہے کہ جب جنات آپ کے پاس آئے اس وقت آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ صبح کی نماز پڑھ رہے تھے۔
علامہ زرقانی علیہ الرحمہ نے فرمایا
” المراد بالفجر الركعتان اللتان كان يصليها قبل طلوع الشمس
فجر کی نماز سے مراد وہ دو رکعتیں ہیں جو طلوع آفتاب سے پہلے پڑھا کرتے تھے۔
جہر بھی تھا۔ اللہ تعالٰی فرماتاہے
(قل أوحى الى انه استمع نَفَرٌ مِّنَ الْجن فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبا یھدی إلى الرشد فامنا به)
کہو وحی کی گئی ہے میری جانب کہ جنوں کی ایک جماعت نے کان لگا کر سنا تو کہا ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے جو ہدایت کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
وقد كانوا سمعوه صلى الله تعالى عليه وسلم في صلاة الفجر، كما تقدم،
تر جمہ اور جنات نے رسول اللہ کی یہ قرآت نماز فجر میں سنی تھی، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔
بالجملہ جہاں تک نظر کی جاتی ہے نماز سابق اصول دار کان میں اس نماز مستقر (موجودہ نماز ) کے موافق نظر آتی ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 85 تا 90