مذہب تبدیل کرنے والے کو امام بنانا کیسا؟
:سوال
ایک شخص جو اپنے آپ کو حنفی کہتا تھا ،بعد میں وہابی ہو گیا، اس کے کچھ عرصہ بعد چکڑالوی ہو گیا ، اب گاؤں کے امام مسجد کی وفات پر اس نے اس خیال سے کہ میں امام مسجد بن جاؤں مسجد کے متعلقہ گھروں کی آمدنی میرے کام آئے ، یہ ظاہر کیا کہ میں نے چکڑالوی مذہب سے تو بہ کی مجھے امام مسجد مقرر کرو، چنانچہ اس کے ہم خیال چند دوستوں نے اس کو پگڑی پہنائی اور اس کو امام مسجد مقرر کر دیا ، اب چند مسلمان اس کے مخالف اٹھے جن کو اس کے چند مذہب بدلنے کا رنج تھا انھوں نے اس کو معزول کرنا چاہا اب چونکہ وہ کچھ علم رکھتا ہے اس نے کہا کہ میں نے تو بہ خالص کر لی ہے اور اب میں حنفی مذہب پر آ گیا ہوں اگر تم اب بھی معزول کرتے ہو تو مجھے شریعت کا حکم دکھاؤ میں کنارے ہو جاؤں گا۔ چنانچہ وہ کہتا ہےکہ کافر کی تو منظور ہے میری بہ کیونکر منظور نہ ہوگی ، پکے مسلمانوں کا خیال ہے کہ اگر یہ امام مسجد مقرر رہا تو یہ دین میں رخنہ انداز ہوگا پھر کئی آدمی اس کے موافق ہو جائیں گے پھر ہم میں اتنی طاقت نہ ہوگی کہ ان کو سیدھا کریں ، آپ فرمائیں کہ ہمارے لئے کیا حکم ہے؟
:جواب
نماز اہم عبادت ہے اور اس کے لئے غایت احتیاط درکار ہے یہاں تک کہ ہمارے علماء نے تصریح فرمائی کہ اگر نماز چند وجہ سے صحیح ٹھہرتی ہو اور ایک سے فاسد ، تو اسے فاسد ہی قرار دیں گے۔ جو شخص ایسا مضطرب الحال ہو کہ اتنے دنوں میں تین مذہب بدل چکا اس کی تو یہ بایں معنی قبول کرنے میں کوئی غدر نہیں تو اگر تو نے دل سے تو بہ کی ہے تو اللہ قبول فرمانے والا ہے نیز اسی سنیت حنفیت کا اظہار کرتے ہوئے اگر وہ مر جائے گا ہم اس کے جنازہ کے ساتھ وہ طریقہ برتیں گے جو ایک سنی حنفی کے ساتھ کیا جاتا ہے لان انما نحكم بالظاهر والله تعالى اعلم بالسرائر ( کیونکہ ہم ظاہر پر حکم لگانے کے پابند ہیں، دلوں کا حال اللہ ہی جانتا ہے ) ۔
مگر اس قبول تو بہ سے یہ لازم نہیں کہ ہم ایسے مضطرب شخص ایسے مشکوک حالت والے کو اپنے ایسے اہم فرض دینی کا امام بھی بنالیں اگر واقع میں وہ سچے دل سے تائب ہوا ہے تو اس کے پیچھے نماز ہو جائے گی اور اگر امامت لینے کے لئے تو بہ ظاہر کرتا ہے تو وہ نماز باطل و فاسد ہوگی اور اس کی حالت شک ڈالنے والی اور نفع کی طمع اس کی تائید کرنے والی کسی طرح عقل سلیم واحتیاط کا مقتضا ہر گز نہیں کہ اسے امام کیا جائے۔ پیسہ کے معاملے میں گواہی کے لئے تو علمائے کرام یہ احتیاط فرماتے ہیں کہ فاسق اگر چہ توبہ کرلے اس کی گواہی مقبول نہ ہوگی جب تک ایک زمانہ اس پر نہ گزرے جس سے صدق تو بہ و صلاح و تقوی کے آثار اس پر ظاہر ہوں کہ جب وہ فاسق ہے تو ممکن کہ اس وقت اپنی گواہی قبول کر ا دینے کے لیئے تو یہ کا اظہار کرتا ہو۔
بلکہ جو جھوٹ کے ساتھ مشہور ہے اس کی نسبت تصریح فرماتے ہیں کہ اس کی گواہی کبھی مقبول نہ ہوگی اگر چہ سو بار تو بہ کرے۔ تم جب دو پیسے کے مال میں یہ احتیاطیں ہیں تو نماز کہ بعد ایمان اعظم ارکانِ دین ہے اس کے لئے کسی درجہ احتیاط واجب، شریعت مطہرہ ہرگز ایسے مشکوک شخص کو امام بنانا پسند نہیں فرماتی جو لوگ اس کی امامت میں کوشاں ہیں وہ اللہ و رسول ( عز وجل وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) و مسلمانوں سب کے خائن ہوں گے۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 555

READ MORE  مقتدی کا سبحان اللہ کی جگہ اللہ اکبر کا لقمہ دینا کیسا؟
مزید پڑھیں:لنگڑے عالم کی امامت کا شرعی حکم
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top