:سوال
سنن ابن ماجہ میں حدیث پاک ہے ( اكلنا مع رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم طعاماً في المسجد قد شوى فمسحنا ايدينا بالحصباء ثم نصلى ولم يتوضأ )) راوی کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بھنا ہوا کھانا کھایا اور ہم نے اپنے ہاتھ پتھروں سے پونچھ لیے پھر نماز پڑھی اور ہم نے وضو نہیں کیا۔
سکن این ماجه ص 246 ، مطبوعہ ایچ ایم کمپنی، کراچی)
اس حدیث سے بظاہر مسجد میں کھانے کا مطلقاً جواز سمجھ آتا ہے۔
:جواب
رہی حدیث ابن ماجہ وہ ایک واقعہ عین ( معینہ ) ہے اور علماء بالا تفاق تصریح فرماتے ہیں کہ وقائع عین کے لئے عموم ( عام حکم ) نہیں ہوتا ممکن کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وصحابہ کرام رضی اللہ تعالی علم اس وقت معتکف ہوں اور صحابی کو یہاں مسئلہ اکل (کھانے کا مسئلہ ) بیان کرنا مقصود نہیں بلکہ یہ کہ مسا مسته النار ( وہ چیز جسے آگ چھولے ) سے وضو نہیں ، علاوہ بریں ( مزید یہ کہ ) فعل و تقریر سے قول اور مسیح (مباح کرنے والے) سے حاظر ( منع کرنے والا ) ارخ ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 94