:سوال
مسجد میں سونا کیسا ہے؟
:جواب
مسجد میں معتکف کو سونا تو بالا تفاق بلا کراہت جائز ہے اور اس کے غیر کے لئے ہمارے علماء کے تین قول ہیں
اول
یہ کہ مطلقاً صرف خلاف اولیٰ ہے۔
دوم
مسافر کو جائز ہے اس کے غیر کو منع ۔
مزید پڑھیں:مسجد کے پتھروں کو دوسری مسجد میں لگانا کیسا؟
سوم
معتکف کے سوا کسی کو جائز نہیں۔ اور یہ کراہت ( منع ہونا اور جائز نہ ہونا اس سے مراد ) کراہت تحریم ہے۔اقول تحقیق امر یہ ہے کہ مرخص (اجازت دینے والا ) و حاظر ( منع کرنے والا ) جب جمع ہوں حاظر کو تر جیح ہوگی اور احکام تبدیل زمان سے متبدل ہوتے ہیں و من لم يعرف اهل زمانه فهو جاهل ( جو شخص اپنے زمانے کو لوگوں کے احوال سے آگاہ نہیں وہ جاہل ہے )۔اور ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں ایک ضابطہ کلیہ فرمایا ہے جس سے ان سب جزئیات کا حکم صاف ہو جاتا ہے فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ) ( من سمع رجلا ينشد ضالة في المسجد فليقل لاردها الله عليك فأن المساجد لم تبن لهذا )) ترجمہ: جو کسی شخص کو سنے کہ مسجد میں اپنی گم شدہ چیز دریافت کرتا ہے تو اس پر واجب ہے کہ اس سے کہے اللہ تیری گمی چیز تجھے نہ ملائے مسجد یں اس لئے نہیں بنیں۔
حیح مسلم ، ج ص 210 نور محمد صبح المطابع، کراچی)
اسی حدیث کی دوسری روایت میں ہے ( اذارأيتم من يتباع في المسجد فقولوا الا اربع الله تجارتك) ترجمہ: جب تم کسی کو مسجد میں خرید و فروخت کرتے دیکھو تو کہو اللہ تیرے سودے میں فائدہ نہ دے۔
(جامع الترندی ، ج 1 می 158 امین کی کتب خانه رشیدی، علی)
اور ظاہر ہے کہ مسجدیں سونے ، کھانے پینے کو نہیں بنیں تو غیر معتکف کو اُن میں ان افعال کی اجازت نہیں اور بلا شبہ اگر ان افعال کا دروازہ کھولا جائے تو زمانہ فاسد ہے اور قلوب ادب و ہیبت سے عاری، مسجد یں چوپال ہو جائیں گی اور ان کی بے حرمتی ہوگی و کل ما ادى الى محظور محظور ( ہر وہ شے جو ممنوع تک پہنچائے ممنوع ہو جاتی ہے )۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 92