:سوال
جماعت ثانیہ کی نسبت کیا حکم ہے؟ یہاں بعض لوگ اس کی ممانعت میں شدت کرتے ہیں، جماعت اولی کے بعد آٹھ آٹھ دس دس آدمی جمع ہو جاتے ہیں مگر جماعت نہیں کراتے برابر کھڑے ہو کر علیحدہ علیحد ہ نماز پڑھتے ہیں یہ کیسا ہے؟
:جواب
مسجد اگر شارع عام یا بازار کی ہے جس کے لئے اہل معین نہیں جب تو بالا جماع اس میں تکرار جماعت باذان جدید و تکبیر جدید ( نئی اذان اور نی تکبیر کے ساتھ ) جائز بلکہ یہی شرعاً مطلوب ہے کہ نوبت بہ نوبت جو لوگ آئیں نئی اذان دا قامت سے جماعت کرتے جائیں۔
اور اگر مسجد محلہ ہے تو اگر اس کے غیر اہل جماعت کر گئے ہیں تو اہل محلہ کو تکرار جماعت بلا شبہ جائز۔
یا اول اہل محلہ ہی نے جماعت کی مگر بے اذان پڑھ گئے ۔
یا اذان آہستہ دی تو ان کے بعد آنے والے باذان جدید بر وجہ سنت اعادہ جماعت کریں۔
یا اگر امام میں کسی نقص قرآت وغیرہ یا فسق یا مخالفت مذہب کے باعث جماعت اولی فاسد یا مطلقاً مکرو ہ یا باقی ماندہ لوگوں کے حق میں غیر اکمل واقع ہوئی جب بھی انہیں اعادہ جماعت سے مانع نہیں۔
یہ سب صورتیں تو قطعی یقینی ہیں اب رہی ایک صورت کہ مسجد مسجد محلہ ہے اور اس کے اہل بروجہ مسنون اذان دے کر امام نظیف موافق المذہب کے پیچھے جماعت کر چکے اب غیر لوگ یا اہل محلہ ہی ہے جو باقی رہ گئے تھے آئے ، انہیں بھی اس مسجد میں جماعت ثانیہ جائز ہے یا نہیں؟
مزید پڑھیں:جماعت میں دوسرے مقتدی کے شریک ہونے کا طریقہ
یہ مسئلہ مختلف فیہا (اس میں اختلاف ) ہے ۔۔ اور قول محقق منقح ( تحقیق شدہ اور تنقیح شدہ قول ) یہ ہے کہ اگر یہ لوگ اذان جدید کے ساتھ اعادہ جماعت کریں تو مکروہ تحریمی ، ورنہ اگر محراب نہ بدلیں تو مکروہ تنزیہی ورنہ اصلاً کسی طرح کی کراہت نہیں، یہی صحیح ہے اور یہی ما خود للفتوی۔
دلائل دینے کے بعد فرماتے ہیں )
بالجملہ جماعت ثانیہ جس طرح عامہ بلاد میں رائج و معمول ( ہیں ) در رو منبع وخزائن شروح معتمدہ کے طور پر تو بالا جماع اور عند التحقق قول صحیح و مفتی بہ پر بلا کراہت جائز ہے کہ دوسری جماعت والے تجدید اذان نہیں کرتے اور محراب سے ہٹ ہی کر کھڑے ہوتے ہیں اور ہم پر لازم کہ ائمہ فتوی جس امر کی ترجیح و تصحیح فرماگئے اس کا اتباع کریں۔ در مختار میں ہے
اما نحن فعلينا اتباع ما رجحوه وما صححوه كما لو افتون في حياتهم
ترجمہ: رہا ہمارا معاملہ تو ہم پر اس قول کی اتباع لازم ہے جسے علماء نے ترجیح دی اور جس کی انہوں نے تصحیح فرمائی، جیسے اس صورت میں ہم پر ان کی پیروی لازم تھی کہ اگر وہ ہمارے زمانہ میں زندہ ہوتے اور فتوی دیتے۔
در مختار ،ج 1 اس 15 مطبع مجتبائی
پھر خلاف صحیح مذہب اختیار کر کے اسے ناجائز ممنوع بتانا اور اس کے سبب لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کو گنہگارٹھہرانا محض بے جا ہے۔
ثم اقول ( پھر میں کہتا ہوں ) : حال زمانہ کی رعایت اور مصلحت وقت کا لحاظ بھی مفتی پر واجب ، علما ء فرماتے ہیں من لم يعرف اهل زمانہ فهو جاہل ترجمہ: جو شخص اپنے دور کے لوگوں کے احوال سے آگاہ نہیں وہ جاہل ہے۔
مزید پڑھیں:سورہ اخلاص پڑھنے کی کیا فضیلت ہے؟
اب دیکھئے کہ جماعت ثانیہ کی بندش میں کوشش و کاوش سے یہ تو نہ ہوا کہ عوام جماعت اولی کا التزام تام کر لیتے ، رباو ہی کچھ آئے کچھ نہ آئے ، ہاں یہ ہوا کہ آٹھ آٹھ دس دس جو رہ جاتے ہیں ایک مسجد میں ایک وقت میں اکیلے اکیلے نماز پڑھ کر نا حق روائض سے مشابہت پاتے ہیں ۔ حضرات مجتہدین رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کے زمانے میں ایسی مشابہت پیدا ہونا در کنار خود جماعت کی برکات عالیہ ظاہری و باطنیہ سے محروم رہنا ایک سخت تازیانہ ( کوڑا) تھا جس کے ڈر سے عوام خواہی نخواہی جماعت اولی کی کوشش کرتے ، اب وہ خوف بالائے طاق اور اہتمام التزام معلوم ۔
جماعت کی جو قدرے وقعت نگاہوں میں ہے کہ اگر رہ گئے اور تنہا پڑھی ایک طرح کی نجات اندامت ہوتی ہے جب بفتوی مفتیان یہی انداز رہے اور گروہ کے گروہ اکیلے اکیلے پڑھا کئے تو ۔ ۔ شدہ شدہ عادت پڑ جاتی ہے چند روز میں یہ رہی سہی وقعت بھی نظر سے گر جائے گی اور اس کے ساتھ ہی سستی و کاہلی اپنی نہایت پر آئے گی۔
اب تو یہ خیال بھی ہوتا ہے کہ خیر اگر پہلی جماعت فوت ہوئی ایسی دیر تو نہ کیجئے کہ اکیلے ہی رہ جائیں اور تنہا پڑھ کرمحرومی وندامت کا صدمہ اٹھائیں ، جب یہ ہوگا کہ جماعت تو آخر ہو چکی اول ہو چکی اب جماعت تو ملنے سے رہی اپنی اکیلی نماز ہے جب جی میں آیا پڑھ لیں گے یا پھر مسجد کی بھی کیا حاجت ہے لاؤ گھر ہی میں سہی ، لہذا ائمہ فتوی رحم اللہ تارک وتعالی کچھ سوچ سمجھ کر ترجیح وتصحیح فرمایا کرتے : تے ہیں من و تو سے ان کے علوم کے علوم وسیعہ عقول رفیعہ لاکھوں درجے بلند و بالا ہیں روایت و درایت و مصالح شریعت و زمانہ و حالت کو جیسا وہ جانتے ہیں دوسرا کیا جانے لگا۔
تنبیہ مگر یہ ان کے لئے ہے جو احیاناً کسی عذر کے باعث حاضری جماعت اولی سے محروم رہے نہ یہ کہ جماعت ثانیہ کے بھروسہ پر قصداً بلاعذر مقبول شرعی جماعت اولی ترک کریں یہ بلا شبہہ نا جائز ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 54 تا 57