:سوال
امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اس موقف کے جب تک سایہ اصلی کے علاوہ دو مثل نہ ہو جائے ظہر کا وقت ختم ہو کر وقت عصر نہیں آتا پر کیا دلیل ہے؟
:جواب
اس مذہب مہذب پر دلیل جلیل صحیح بخاری شریف کی حدیث باب الاذان للمسافر میں ہے کہ
ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ہم ایک سفر میں نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ہمراہ رکاب اقدس تھے موذن نے آذان ظہر دینے چاہی فرمایا ابرد(وقت ٹھنڈا کر) کچھ دیر کے بعد پھر مؤذن نے آذان دینی چاہی فرمایا ابرد (وقت ٹھنڈا کر )کچھ دیر کے بعد مؤذن نے سہ بارہ آذان کا ارادہ کیا فرمایا ابرد( وقت ٹھنڈا کر)اور یوہی تاخیر کا حکم فرماتے رہے یہ حتی ساوی الظل التول( یہاں تک کہ سایہ ٹیلوں کے برابر ہو گیا )اس وقت اذان کی اجازت فرمائی اور ارشاد فرمایا گرمی کی شدت جہنم کی سانس سے ہے تو جب گرمی سخت ہو ظہر ٹھنڈے وقت پڑھو
مشاہدہ شاہد اور قواعد علم ہیات گواہ اور خودائمہ شافعیہ کی تصرحیات ہیں کہ دوپہر کو ٹیلوں کا سایہ ہوتا ہی نہیں معدوم محض ہوتا ہے خصوصا الکلیم ثانی میں جس میں حرمین طیبین اور ان کے بلاد ہیں امام قسطلانی شافعی نے فرمایا ٹیلے زمین پر نصب کی ہوئی ایشیا کی مانند نہیں بلکہ زمین پر پھیلے ہوتے ہیں تو زوال کے بہت زمانے بعد ان کا سایہ شروع ہوتا ہے جب ظہر کا اثر وقت گزر جاتا ہے ظاہر ہے کہ جب آغازاس وقت ہوگا تو ٹیلوں کے برابر ہرگز نہ پہنچے گا مگر مثل ثانی کے بھی اخیر حصہ میں اس وقت تک حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے آذان نہ دینے دی تو نماز یقینا اور بعد ہوئی اور شبہ مثل ثانی بھی وقت ظہر ہوا
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 134