:سوال
کیا حدیث کے راویوں کے ضعیف ہونے کی وجہ سے حدیث کو موضوع نہیں کہہ سکتے؟
:جواب
ضعف راویان کے باعث حدیث کو موضوع کہہ دینا ظلم وجزاف( بے تکی بات) ہے
علماء کی تصریح ہے کہ مجرد(صرف) ضعف راوتہ کے سبب حدیث کو موضوع کہہ دینا ظلم و جزاف ہے
شمس ذہبی اپنی تاریخ پر خاتم الحفاظ تعقبات میں فرماتے ہیں۔
صنف ابن الجوزی کتاب الموضوعات فاصاب فی ذکرالاحادیث مخالفتہ للنقل والعقل وممالم یصب فیہ اطلاقہ الوضع علی احادیث بکلام باعض الناس فی رواتھا کقولہ فلان ضعیف اولیس بالقوی اولین ولیس ذللک الحدیث مما یشھد القلب ببطلانہ ولا فیہ مخالفہ ولا معارضتہ لکتاب ولاسنتہ ولا اجماع ولا حجتہ بانہ موضوع سوی کلام ذللک الرجل فی رواتہ وھذا عدوان ومجازفتہ
ترجمہ ابن جوزی نے کتاب الموضوعات لکھی تو اس میں انہوں نے ایسی روایات کی نشان دہی کر کے بہت ہی اچھا کیا جو عقل و نقل کے خلاف ہے لیکن بعض روایات پر وضع کا اطلاق اس لیے کر دیا کہ ان کے بعض راویوں میں کلام تھا یہ درست نہیں کیا مثلا یہ راوی کے بارے میں یہ قول کے فلاں ضعیف ہے یا وہ قوی نہیں یا وہ کمزور ہے یہ حدیث ایسی نہیں کہ اس کے بطلان پر دل گواہی دینا اس میں مخالف ہے نہ یہ کتاب و سنت اور اجماع کے معارض ہے اور نہ ہی یہ اس بات پر حجت ہے کہ یہ روایت موضوع ہے ما سوائے راویوں میں اس آدمی کے کلام کے اور یہ زیادتی و تخمین( اندازہ) ہے
پھر کسی ہلکے سے ضعف کی خصوصیت نہیں بلکہ سخت سخت اقسام جرح میں جن کا ہر ایک جہالت راوی سے بدر جہا بدتر ہے یہی تصریح ہے کہ ان سے بھی موضوعیت لازم نہیں مثلا راوی کی اپنی مرویات میں ایسی غفلت کے دوسرے کی تلقین قبول کر لے یعنی دوسرا جو بتا دے کہ تو نے یہ سنا تھا وہی مان لے پر ظاہر کے یہ شدت غفلت سے ناشی اور غفلت کا طعن فسق سے بھی بدتر اور جہالت سے دو چار درجہ زیادہ سخت ہے
امام الشان نے نخبتہ الفکر میں اسباب طعن کی دس 10 قسمیں فرمائیں
کذب۔ کہ معاذ اللہ قصداً حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر افتراء کرے
تہمت کذب۔ کہ جو حدیث اس کے سوا دوسرے نے روایت نہ کی مخالف قواعد دینیہ ہو یا اپنے کلام میں جھوٹ کا عادی ہو
کثرت غلط
غفلت
فسق
وہم
مخالفت ثقات
جہالت
بدعت
سوءحفظ
اور تصریح فرمائی کہ ہر پہلا دوسرے سے سخت تر ہے
پھر علماء فرماتے ہیں ایسے غافل شدید الطعن کی حدیث بھی موضوع نہیں
اواخر تعقبات میں ہے
فیہ یزید بن ابی زیاد وکان یلقن فیتلقن۔ قلت ھذا لا یقتضی الحکم بوضع حدیثہ۔
اس میں یزید ابن ابو زید ہے اسے تلقین کی جاتی تو وہ تلقین کو قبول کر لیتا تھا میں کہتا ہوں کہ یہ قول اس کی وضع حدیث کا تقاضا نہیں کرتا
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 453