:سوال
ایک شخص کسی پر کورٹ کچہری میں کوئی دعوی کرے اور مقدمہ ہار جائے تو کیا اس کا جھوٹا ہونا ثابت ہو جائے گا؟
:جواب
کچہری میں مقدمہ ہار جانے سے جھوٹا ہونا ثابت نہیں ہوتا، کچہریوں میں ہزاروں بار جھوٹے سچے اور نیچے جھوٹے ٹھہرتے ہیں، انگریزی کچہریاں تو شرع مظہر سے علاقہ رکھتی ہی نہیں بلکہ یہاں کے اسلامی محکمے ہی پوری پابندی شرع سے صراحہ کنارہ گزیں (ہیں)۔ جہاں ( اسلامی دور حکومت میں ) کامل شرعی عدالتیں تھیں وہاں بھی با آنکہ قاضی شرع جس کے خلاف حکم فرمادے اُسے فقہاء دفع تناقض ( تعارض کو دور کرنے) کے لئے صار مکذ با شرعاً ( شرعاً جھٹلا دیا گیا ) لکھتے ہیں مگر کسی مدعی یا مد عاعلیہ کو صرف اس بنا پر کا ذب و فاسق و مرتکب کبیرہ نہیں کہہ سکتے کہ حکم حاکم بنظر ظاہر ہوتا ہے اُس سے واقع میں کذب لازم نہیں آتا ۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں” انما انا بشر وانكم تختصمون الى ولعل بعضكم أن يكون الحن بحجته من بعض فأقضى له على ما نحوما اسمع منه فمن قضيت له بشيء من حق اخيه فلا يأخذنه فانما اقطع قطعة من النار”ترجمہ: میں ایک انسان ہوں اور تم میرے پاس اپنے مقدمات لے کر آتے ہو ممکن ہے تم میں سے کوئی آدمی دلیل پیش کرنے میں ہوشیار ہو اور دلیل کی وجہ سے دوسرے پر غالب آجائے اور میں دلائل سننے کے بعد اس کے مطابق فیصلہ کردوں تو جس کے حق میں دوسرے بھائی کے حق کا فیصلہ ہوا ہو وہ اس کو نہ لے کیونکہ وہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے۔
(صحیح البخاری ، ج 2 ،ص 10 ، قدیمی کتب خانہ کراچی)
علاوہ بریں بعض وقت آدمی کسی شبہ یا سہو یا جہل کے باعث اپنے آپ کو حق پر جان کر دعوی یا جواب دہی کرتا ہے تو بات واقع میں اگر چہ خلاف ہے مگر اس نے قصد کذب نہ کیا حکم فسق اس پر نہ ہوا۔ علاوہ بریں جب آدمی کا حق مارا جاتا ہو اور وہ بغیر کسی ایسے اظہار کے جو بظاہر خلاف واقع ہے حاصل نہ ہو سکتا ہو تو اپنے احیائے حق ( حق حاصل کرنے ) کے لئے ایسی بات کا بیان شرعاً جائز ہے اگر چہ سامع اُسے کذب پر محمول کرے۔ بالجملہ صورت مذکورہ میں صرف بیان مدعا علیہ کوئی چیز نہیں اگر کسی گواہ سے بھی ثابت ہو کہ زید نے اپنے دعوی یا تائید دعوی میں کوئی بات خلاف کہی تو اس سے واقعی کا ذب و فاسق ہونا ثابت نہیں ہوتا۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 491