:سوال
کیا اہل قبور اپنے زائرین کو دیکھتے پہچانتے اور ان کی زیارت پر مطلع ہوتے ہیں؟ اس بارے میں کچھ اقوال علماء بیان فرمادیں؟
:جواب
وہ اپنے زائرین کو دیکھتے پہچانتے اور ان کی زیارت پر مطلع ہوتے ہیں: مولا نا علی قاری علیہ رحمۃ الباری مسلک
متقسط شرح منسک متوسط، پھر فاضل ابن عابدین حاشیہ شرح تنویر میں فرماتے ہیں ” من اداب الزيارة ما قالوا من انه لاياتي الزائر من قبل راسه لانه اتعب بصر الميت بخلاف الأول لانه يكون مقابل بصره ” زيارت قبور کے ادب سے ایک بات یہ ہے جو علماء نے فرمائی ہے کہ زیارت کو قبر کی پائنتی سے جائے نہ کہ سرہانے سے کہ اس میں میت کی نگاہ کو مشقت ہوگی یعنی سر اٹھا کر دیکھنا
پڑھے گا، پائنتی سے جائے گا تو اس کی نظر کے خاص سامنے ہوگا۔
ردالمختار ر حاشیه در مختار ج 1 جمس 665 مصطفی البابی مصر)
مزید پڑھیں:روحیں نہیں مرتیں، اس بارے میں علماء کے کچھ اقوال
مدخل میں فرمایا “
كفى فى هذا بيانا قوله عليه الصلوة والسلام المؤمن ينظر بنور الله انتهى ونور الله لایححبہ شيءهذا في حق الاحياء من المومنين، فكيف من كان منهم في الدار الآخرة “
اس امر کے ثبوت میں کہ اہل قبور کو احوال احیاء پر علم وشعور ہے، سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا یہ فرمان ایسی ہے کہ مسلمان خدا کے نور سے دیکھتا ہے اور خدا کے نور کو کوئی چیز پردہ نہیں ہوتی، جب زندگی کا یہ حال ہے تو ان کا کیا پوچھنا جو آخرت کے گھر یعنی برزخ میں ہیں۔
المدخل ، ج 1 ، ص 253 ، دار الكتاب العربی، بیروت)
انيس الغریب میں فرمایا ” و يعرفون من اتاهم زائراً جو زیارت کو آتا ہے مردے اسے پہچانتے ہیں۔
(انیس الغریب)
مزید پڑھیں:اہل قبور سنتے دیکھتے، اور محسوس کرتے ہیں
تیسیر میں ہے الشعور باق حتى بعد الدفن حتى انه يعرف زائره شعور باقی ہے یہاں تک کہ بعد دفن بھی یہاں تک کہ اپنے زائر کو پہچانتا ہے۔
التیسیر شرح جامع صغیر، ج 1، ص 303 مكتبة الامام الشافعي ، الرياض السعودية)
تیسیر میں زیر حدیث من زار قبر ابویہ (جس نے اپنے باپ کی قبر کی زیارت کی )نقل فرمایا “
هذا نص في ان الميت يشعر من يزوره والا لما صح تستميته زائرا واذا لم يعلم المزور بزيارة من زاره لم يصح ان يقال زاره، هذا هو المعقول عند جميع الامم
یہ حدیث نص ہے اس بات میں کہ مردہ زائر پر مطلع ہوتا ہے ورنہ اسے زائر کہنا صحیح نہ ہوتا کہ جس کی ملاقات کو جائیے جب اسے خبر ہی نہ ہو تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس سے ملاقات کی تمام عالم اس لفظ سے یہی معنی سمجھتا ہے۔
تیسیر شرح جامع صغیر ج 2 ص 420 مکتبہ الامام اشافعی الریاض السعودیہ
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر9، صفحہ نمبر 760