کتب حدیث کے چار طبقات
:سوال
شاہ ولی اللہ نے کتب احادیث کے چار طبقات بیان کئے ہیں پہلا طبقہ میں بخاری و مسلم کو ، دوسرے میں ترمزی، ابوداؤ ، نسائی وغیرہ کو، تیسرے میں مصنف عبد الرزاق ، مصنف ابن ابی شیبہ بیہقی ، طبرانی وغیرہ کو اور چوتھے طبقہ میں کتب ابونعیم ، تصانیف خطیب بغدادی وغیرہ کو شمار کیا ہے ۔
شاہ عبد العزیز صاحب نے لکھا ہے کہ طبقہ رابعہ کی احادیث اس قابل نہیں کہ ان سے عقیدہ و عمل سے استدلال کیا جاسکے ۔ اس وجہ سے غیر مقلدین یہ کہتے ہیں کہ طبقہ رابعہ کی ساری احادیث بے اصل ہیں۔
:جواب
کسی حدیث کا کتب طبقہ رابعہ سے ہونا موضوعیت بالائے طاق ، ضعف شدید در کنار مطلق ضعف کو بھی مستلزم نہیں، ان میں حسن صحیح ، صالح، ضعیف، باطل ہر قسم کی حدیثیں ہیں، ہاں بوجہ اختلاط ( صحیح وضعیف ملی ہونے کی وجہ سے )وعدم بیان ( اور ان کے ضعف و صحت کو بیان نہیں کیا ) کہ عادت جمہور محدثین ہے، ہر حدیث میں احتمال ضعف قدیم ،لہذا غیر ناقد ( صحیح وضعیف کو پر کھنے والے کے علاوہ ) کو بے مطالعہ کلمات ناقدین اُن سے عقائد واحکام میں احتجاج ( کا حق ) نہیں پہنچا، قول شاہ عبد العزیز صاحب این احادیث قابل اعتماد نیستند که در اثبات عقیده با عملے بأنها تمسك كرده شود ( یہ احادیث قابل اعتماد نہیں ہیں کہ ان سے عقید و عمل میں استدلال کیا جا سکے ) کے یہی معنی ہیں ، نہ یہ کہ ان کتابوں میں جتنی حدیثیں ہیں سب واہی ساقط ہیں موضوع وباطل اور اصل در بارہ فضائل بھی ایراد و استناد کے ناقابل ، کوئی ادنی ذی فہم وتمیز بھی ایسا ادعانہ کرے گا نہ کہ شاہ صاحب سا فاضل ، ہاں متکلمان طائفہ وہابیہ اپنی جہالتیں جس کے سر چاہیں دھریں۔
 اولا خود شاه صاحب اثبات عقیدہ و عمل کا نکار فرمارہے ہیں اور وہ فضائل اعمال میں تمسک (استدلال) کے منافی نہیں۔
ثانیاً تصانیف خطیب و ابونعیم بھی طبقہ رابعہ میں ہیں اور شاہ صاحب بستان المحدثین میں امام ابونعیم کی نسبت فرماتے ہیں ” از نوادر کتب او کتاب حلية الأولياء است که نا نظیر آں در سلام تصنیف نشده ان کی تصانیف میں سے حلیتہ الاولیا ء ایسے نوادرات میں سے ہے جس کی مثل اسلام میں آج تک کوئی کتاب تصنیف نہ ہوئی۔
اسی میں ہے کتاب اقتضاء العلم والعمل از تصانیف خطیب است بسیار خوب کتابے است درباب خود خطیب بغدادی کی کتب میں اقتضاء العلم والعمل اپنے فن میں بہت سی خوبیوں کی حامل ہے۔
مزید پڑھیں:اولاد پر خرچ کرنا، خیرات کرنا اور مستقبل کے لیے رکھنا کیسا؟
سبحان اللہ کہاں شاہ صاحب کا یہ حسن اعتقاد اور کہاں ان کے کلام کی وہ بیہودہ مراد کہ وہ کتب سراسر مہمل وناقابل استناد۔
ثالثاً شاہ صاحب مرحوم کے والد شاہ ولی اللہ صاحب حجتہ البالغہ میں اسی طبقہ رابعہ کی نسبت لکھتے ہیں اصلح هذه شات الطبقة ما كان ضعيفاً محتملا یعنی اس طبقہ کی احادیث میں صالح تر وہ حدیثیں ہیں جن میں ضعف قلیل قابل تحمل ہو۔
 ظاہر ہے کہ ضعیفہ محتمل اونی انجار سے خود احکام میں حجت ہو جاتی ہے اور فضائل میں تو بالا جماع تنہاہی مقبول وکافی ہے، پھر یہ حکم بھی بلحاظ انفراد ہوگا ورنہ ان میں بہت احادیث منجبر ہ حسان ملیں گی اور عند التحقیق یہ بھی باعتبار غالب ہے ورنہ فی الواقع ان میں صحاح، حسان سب کچھ ہیں۔
رابعا شاہ ولی اللہ صاحب نے قرۃ العینین فی تفضیل الشیخین میں صریح تصریح کی ہے کہ کتب طبقہ اربعہ میں نہ صرف ضعیف محتمل بلکہ حسان بھی موجود ہیں اگر چہ لغیر ہا کہ وہ بھی بلاشبہ خود احکام میں حجت نہ کہ فضائل ۔
خامساانہی شاہ صاحب نے اس حجہ میں سنن ابی داؤ دوتر مزی و نسائی کو طبقہ ثانیہ اور مصنف عبد الرزاق وابو بکر بن ابی کے شیبه و تصانیف ابی داؤ د طیالسی و بیہقی و طبرانی کو طبقہ ثالثہ اور کتب ابونعیم کو طبقہ رابعہ میں گنا۔ ۔ ( الجوامع میں علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے) ان طبقات ثانیہ ورابعہ سب کو ایک ہی مشق میں گنا اور سود پر یہی حکم فرمایا کہ ان میں صحیح حسن ضعیف سب کچھ ہے۔
مزید پڑھیں:کتب موضوع احادیث میں مطلق مذکور حدیث کا مفہوم
سادساً خود شاہ صاحب کی تصانیف تفسیر عزیزی و تحفہ اثنا عشریہ وفرہا میں جا بجا احاد یث کے طبقہ رابعہ سے بلکہ ان سے بھی اتر کر استناد موجود ، اب یا تو شاہ صاحب معاذ اللہ خود کلام اپنا نہ سمجھتے یا یہ سفہاء (وہابیہ نے و قوف) ناحق تحریف معنوی کر کے
احادیث طبقہ رابعہ کو مہمل و معطل ٹھہر انا ان کے سر کیے دیتے ہیں تمثیلا چند نقول حاضر ہیں
تفسیر عزیزی میں ہے ثعلبی نے شعبی سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے شعبی کے پاس آ کر شکایت کی کہ مجھے درد گردہ ہےانہوں نے فرما یاتو اساس القرآن پڑھ کر جائے دردپردم کر اس نے عرض کیا کہ اساس القرآن کیا ہے ؟فرمایا سورۃالفاتحہ۔
تفسیر عزیزی میں ہے حافظ خطیب بغدادی حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دن میں حضور علیہ الصلاۃو السلام کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا آپ نے فرمایا ابھی ایک شخص آئے گا کہ میرے بعد اس سے بہتر شخص اللہ تعالی نے پیدا نہیں فرمایا اس کی شفاعت روز قیامت اللہ تعالی کے پیغمروں کی شفاعت کی طرح ہوگی ۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ ابھی تھوڑی دیر گزری تھی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ تشریف لائے ۔
مزید پڑھیں:اہل قبور سنتے دیکھتے، اور محسوس کرتے ہیں
ثعلبی، حافظ بغدادی کی کتب طبقہ رابعہ سے تعلق رکھتی ہیں )۔
تحفہ اثنا عشریہ میں ہے شیعہ اور سنی دونوں کے ہاں روایات صحیحہ میں ثابت ہے کہ یہ معاملہ حضرت ابوبکر پر نہایت شاق گزرا ، لہذا آپ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر کے دروازے پر حاضر ہوے اور امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو سفارشی بنایا تا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا ان سے راضی ہو جائے ، روایات اہلسنت مدارج النبوة ، الوفاء بیہقی اور شروح مشکوۃمیں موجود ہیں بلکہ شرح مشکوۃ میں شیخ عبد الحق رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر اس واقعہ کے بعد سید ہ فاطمۃ الزہرا کے گھر کے باہر دھوپ میں کھڑے ہو گئے اور معذرت کی اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہما ان سے راضی ہوگئیں۔
سابعا طرفہ تر یہ کہ شاہ صاحب نے تصانیف حاکم کو بھی طبقہ رابعہ میں گنا حالانکہ بلاشبہ مستدرک حاکم کی اکثر احادیث اعلی درجہ کی صحاح وحسان ہیں بلکہ اس میں صد ہاحد یثیں بر شرط بخاری و مسلم صحیح ہیں قطع نظر اس سے کہ تصانیف شاہ صاحب میں کتب حاکم سے کتنے استاد ہیں اور بڑے شاہ صاحب کی ازالتہ الشفاء وقرۃ العینین تو مستدرک سے تو وہ اور احادیث نہ صرف فضائل بلکہ خود احکام میں مذکور
مزید پڑھیں:مردہ سے کلام کرنے سے قسم نہیں ٹوٹتی
لطیف تر یہ ہے کہ خود ہی بستان المحد ثمین میں امام الشان ابوعبد اللہ ذہبی سے نقل فرماتے ہیں انصاف یہ ہے
کہ مستدرک میں اکثر احادیث ان دونوں بزرگوں ( بخاری ومسلم ) یا ان میں سے کسی ایک کے شرائط پر ہیں بلکہ ظن میں غالب ہے تقریبا نصف کتاب اس قبیل سے ہے اور تقریبا اس کا چوھائی ایسا ہے کہ بظاہر ان کی اسنا دی صحیح ہیں لیکن ان دو( بخاری وسلم )کی شرائط پر نہیں اور باقی چوتھائی واہیات اور منا کیر بلکہ بعض موضوعات بھی ہیں اس لئے میں نے اس کے خلاصہ جوکہ تلخیصں ذہبی سے مشہور ہے، میں اس بارے میں خبردار کیا ہے”
تنبیہ: بحمد الله ان بیانات سے واضح ہو گیا کہ اس طبقہ والوں کی احادیث مترو کہ سلف کو جمع کرنے کے معنی اسی قدر ہیں کہ جن احادیث کے ایراد (اپنے کتابوں میں وارد کرنے) سے اُنہوں نے احتراز کیا انہوں نے درج کیں ، نہ یہ کہ انہوں نے جو کچھ لکھا سب متروک سلف ہے مجرد عدم ذکر کو اس معنے پر محمول کرنا کہ ناقص سمجھ کر بالقصد ترک کیا ہے محض جہالت در نہ افراد بخاری ( جواحادیث صرف امام بخاری نے ذکر کیں ) متروکات مسلم ہوں اور افراد مسلم متروکات بخاری اور ہر کتاب متاخر کی وہ حدیث کے تصانیف سابقہ میں نہ پائی گئی تمام سلف کی متروک مانی جائے مصنفین میں کسی کو دعوائے استیعاب نہ تھا۔ امام بخاری کو ایک لاکھ احادیث صحیحہ حفظ تھیں صحیح بخاری میں کل چار ہزار بلکہ اس سے بھی کم ہیں۔
ثامناً شاہ صاحب نے لکھا ”امام ذہبی نے کہا ہے کہ امام حاکم کی تصحیح پر کوئی کفایت نہ کرے تا وقتیکہ اس پر میری تعقبات و تلخیصات کا مطالعہ نہ کرلے ۔
مزید پڑھیں:ایک سے زیادہ موضوع احادیث ہوں، تو کیا وہ کارآمد ہو جاتی ہیں؟
شاہ صاحب اس کلام امام ذہبی کو نقل کر کے فرماتے ہیں اس لیے محدثین نے یہ ضابطہ مقرر کر دیا ہے کہ مستدرک حاکم پرذہبی کی تلخیص دیکھنے کے بعد اعتماد کیا جائے گا
ان عبارات سے ظاہر ہوا کہ وجہ بے اعتماد یہی اختلاط صحیح وضعیف ہے اگر چہ اکثر صحیح ہی ہوں جیسے مستدرک میں تین ربع کتاب کی قدر احادیث صحیحہ ہیں نہ کہ سب کا ضعیف ہونا، چہ جائے ضعف شدید یا بطلان محض کہ کوئی جاہل بھی اس کا اعاد نہ کرے گا اور اس بے اعتمادی کے یہی معنی اگر خود لیاقت نقد رکھتا ہو آپ پر کھے ورنہ کلام نا قدین کی طرف رجوع کرے بے اس کے حجت نہ سمجھ لے۔
اب انصافاً یہ حکم نہ صرف کتب طبقہ رابعہ بلکہ ثانیہ ثالثہ سب پر ہے کہ جب منشا اختلاط صحیح وضعیف ہے اور وہ سب میں قائم تو یہی حکم سب پر لازم آخر نہ دیکھا کہ ائمہ دین نے صاف صاف یہی تصریح سنن ابی داود و جامع ترمذی و سند امام احمد وسنن
 ابن ماجه و مصنف ابوبکر ابن ابی شیبه و مصنف عبدالرزاق و غیرہا سنن و مسانید کتب طبقہ ثانیہ و ثالثہ کی نسبت بھی فرمائے۔
امام خاتم الحفاظ کا قول ابھی سن چکے کہ انہوں نے ان سب کتب کو ایک سلک میں منسلک فرمایا۔ بالجملہ حق یہ کہ مدار اسناد و نظر وانتقاد یا تحقیق نقاد پر ہے نہ فلاں کتاب میں ہونے فلاں میں نہ ہونے پر۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 538 تا 547

READ MORE  Fatawa Rizvia jild 06, Fatwa 785, 786
مزید پڑھیں:فضائل میں کوئی بے سند حدیث کتب علماء میں ہوتو کیا قبول ہوگی؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top