:سوال
اگر کوئی امام عادتاً مغرب کی اذان اُس وقت دلوائے کہ اُس شہر کی سب مساجد میں یقیناً نماز ہو چکی ہو مثلا 20 منٹ کے بعد اور اپنے پیر کے دکھانے کو یعنی اُس کی موجودگی میں بیس 20 منٹ قبل (یعنی وقت پر اذان دلوائے )، قصدا ایساکرے اور ساتھ ہی اس کے جو سجود و قعود کہ وہ عادتا کرتا تھا اپنے پیر کی موجودگی اُس سے تین گنا زیادہ وقت میں ادا کرے تو یہ اذان و نماز کہاں تک ریا کاری پر دلالت کرتی ہے؟
:جواب
اذان مغرب میں بلا وجہ شرعی تا خیر خلاف سنت ہے، پیر کے سامنے جلد دلوانار یا پر کیوں معمول کیا جائے بلکہ پیرکے خوف یا لحاظ سے اس خلاف سنت (فعل) کا ترک ( کیا ہے )۔
پیر کے سامنے رکوع وسجود میں دیر بھی خواہ نخواہ ر یا اور مکاری پر دلیل نہیں بلکہ اس کے موجود ہونے سے تاثر بھی ممکن اورمسلمانوں کا فعل حتی الامکان محمل حسن پر محمول کرنا واجب اور بدگمانی ریا سے کچھ کم حرام نہیں ۔
ہاں اگر رکوع و سجود میں اتنی دیر لگا تا ہو کہ سنت سے زائد اور مقتدیوں پر گراں ہو تو ضرور گنہگار ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 324