:سوال
زید کہتا ہے کہ یہ نماز طریقۂ خلفائے راشدین کے بھی خلاف ہے۔
:جواب
اسی طرح اس نماز کو طریقہ خلفائے راشدین و صحابہ کرام کے خلاف کہنا بھی اسی سفاہت قدیمہ پر مبنی کہ جو فعل اُن سے منقول نہ ہو عموماً ان کے نزدیک ممنوع تھا حالانکہ عدم ثبوت فعل وثبوت عدم جواز ( کسی فعل کا ثبوت نہ ملنے اور عدم جواز کا ثبوت مل جانے ) میں زمین و آسمان کا فرق ہے، امام علامہ احمد بن محمد قسطلانی شارح صحیح بخاری مواہب لدنیہ ومنح محمد یہ میں فرماتے ہیں ”الفعل بدل على الجواز وعدم الفعل لا يدل على المنع ” کرنا تو جواز کی دلیل ہے اور نہ کرنا ممانعت کی دلیل نہیں۔ رافضیوں نے اس طائفہ جدیدہ کی طرح ایک استدلال کیا تھا اس کے جواب میں شاہ عبد العزیز صاحب دہلوی تحفہ اثناء عشریہ میں لکھتے ہیں” نکردن چیزے دیگر ست و منع فرمودن چیزی دیر دیگر است ملخصاً ” ترجمہ: نہ کرنا اور چیز ہے اور منع کرنا اور چیز ہے۔
(تحفہ اثنا عشریہ ،ص 269 ،سہیل اکیڈمی، لاہور)
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 583