:سوال
زید کہتا ہے کہ صلوٰۃ غوثیہ قرآن وحدیث کے خلاف ہے۔
:جواب
اس نماز کو قر آن وحدیث کے خلاف بتانا محض بہتان و افتراء ہرگز ہر گز قرآن وحدیث میں کہیں اس کی ممانعت نہیں ، نہ مخالف کوئی آیت یا حدیث اپنے دعوے میں پیش کر سکا، ہر جگہ صرف زبانی ادعا سے کام لیا مگر یہ وہی جہات قبیحہ وسفاہت فضیحہ ہے جس میں فرقہ جدید ہ وطائفہ حادثہ قدیم سے مبتلا یعنی قرآن وحدیث میں جس امر کا ذکر نہیں وہ ممنوع ہے اگر چہ اس کی ممانعت بھی قرآن وحدیث میں نہ ہو، ان ذی ہوشوں کے نزدیک امرونہی میں کوئی واسطہ ہی نہیں اور عدم ذکر ذکر عدم ہے پھر خدا جانے سکوت کس شے کا نام ہے! حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں” الحلال ما احل الله في كتاب، والحرام ما حرم الله في كتاب وماسكت فهو مما عفا عنه ” حلال وہ ہے جو خدا نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے جو خدا نے اپنی کتاب میں حرام بتایا اور جس سے سکوت فرمایا وہ عفو ہے یعنی اس میں کچھ مواخذہ نہیں۔
مزید پڑھیں:حضور ﷺ صحابہ کرام کو قرآن کیسے سیکھاتے تھے؟
( جامع الترمذی م،ج1،ص 206، امین کمپنی کتب خانہ رشید یہ دہلی)
اور اس کی تصدیق قرآن عظیم میں موجود کہ فرماتا ہے جل ذکرہ ”يا یها الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْلُوْا عَنْ أَشْيَاء إِنْ تبدَلَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِنْ تَسُلُوْا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَلَكُمْ عَفَا اللهُ عَنْهَا وَاللهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ ”اے ایمان والو! وہ باتیں نہ پوچھو کہ تم پر کھول دی جائیں تو تمہیں برا لگے اور اگر قرآن اترتے وقت پوچھو گے تو تم پر ظاہر کر دی جائیں گی اللہ نے ان سے معافی فرمائی ہے اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔
بہت سی باتیں ایسی ہیں کہ ان کا حکم دیتے تو فرض ہو جاتیں اور بہت ایسی کہ منع کرتے تو حرام ہو جاتیں پھر جو انہیں چھوڑتا یا کرتا گناہ میں پڑتا ، اس مالک مہربان نے اپنے احکام میں، اُن کا ذکر نہ فرمایا یہ کچھ بھول کر نہیں کہ وہ تو بھول اور ہر عیب سے پاک ہے بلکہ ہمیں پر مہربانی کے لئے کہ یہ مشقت میں نہ پڑیں
تو مسلمانوں کو فرماتا ہے تم بھی ان کی چھیڑ نہ کرو کہ پوچھو گے حکم مناسب دیا جائے گا اور تمہیں کو وقت ہوگی ۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوا کہ جن باتوں کا ذکر قرآن وحدیث میں نہ نکلے وہ ہرگز منع نہیں بلکہ اللہ کی معافی میں ہیں ۔ سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا ” ان الله تعالى فرض فرائض فلا تضيعوها، وحرم حرمات فلا تنتهكوها وحد حدودا فلا تعتدوها، وسكت عن أشيئاء من غير نسيان فلا تبحثوا عنها ” بیشک اللہ تعالی نے کچھ باتیں فرض کیں انہیں ہاتھ سے نہ جانے دو اور کچھ حرام فرمائیں ان کی حرمت نہ توڑ وار کچھ حدیں باندھیں اُن سے آگے نہ بڑھو اور کچھ چیزوں سے بے بھولے سکوت فرمایا ان میں کاوش نہ کرو۔
مزید پڑھیں:کیا بسم اللہ کا جزو سورت ہونا تواتر سے ثابت ہے؟
(سنن الدار قطنی، ج 4 ،ص 184 ،انشرالسنۃ ، ملتان )
سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ سلم فرماتے ہیں” ذروني ما تركتكم فانما هلك من كان قبلكم بكثرة سؤالهم. واختلافهم على انبيائهم فإذا نهيتكم عن شيء فاجتنبوه واذا أمرتكم بأمر فأتوا منه ما استطعتم”یعنی جس بات
میں میں نے تم پر تصییق نہ کی اس میں مجھ سے تفتیش نہ کرو کہ اگلی امتیں اسی بلا سے ہلاک ہوئیں، میں جس بات کو منع کروں اس سے بچو اور جس کا حکم دوں اسے بقدر قدرت بجالاؤ۔
(صحیح مسلم،ج1،ص432،نور محمد اصح المطابع ،کراچی )
سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں ”ان اعظم المسلمين في المسلمين جرما من سأل عن شيء لم يحرم على الناس فحرم من اجل مسألته ” بیشک مسلمانوں کے بارے میں اُن کا بڑا گناہگار وہ ہے جو ایسی چیز سے سوال کرے کہ حرام نہ تھی اُس کے سوال کے بعد حرام کر دی گئی ۔
(صحیح بخاری ،ج 2 ،ص 1082 ، اصح المطابع ،کراچی )
یہ احادیث با علی ندا منادی ( پکار پکار کر نداء کر رہی ہیں ) کہ قرآن وحدیث میں جن باتوں کا ذکر نہیں نہ ان کی اجازت ثابت نہ ممانعت وارد، اصل جواز پر ہیں ورنہ اگر جس چیز کا کتاب وسنت میں ذکر نہ ہو مطلقاً ممنوع و نا درست ٹھہرے تو اس سوال کرنے والے کی کیا خطا ، اس کے بغیر پوچھے بھی وہ چیز نا جائز ہی رہتی ۔ بالجملہ یہ قاعدہ نفیسہ ہمیشہ یاد رکھنے کا ہے کہ قرآن وحدیث سے جس چیز کی بھلائی یا برائی ثابت ہو وہ بھلی یا بری ہےور جس کی نسبت کچھ ثبوت نہ ہو وہ معاف و جائز و مباح ور دا اور اس کو حرام و گناه و نادرست و ممنوع کہنا شریعت مطہر و پر افترا۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 581