:سوال
زید کہتا ہے کہ صلوٰۃ غوثیہ اخلاص اور توکل کے بھی خلاف ہے۔
:جواب
اسے اخلاص و توکل کے خلاف ماننا عجب جہالت بے مزہ ہے اس میں محبوبان خدا کی طرف توجہ بغرض توسل ہے اور ان سے توسل قطعاً محمود ، اور ہرگز اخلاص و توکل کے منافی نہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (و انتغوا الیه الوسيلة و جَاهِدُوا فِي سَبِيْلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ) اللہ کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں کوشش کرو کہ تم مراد کو پہنچو۔ اور انبیاء و ملائکہ علیہم الصلوۃ و السلام کی نسبت فرماتا ہے ، (أولئك الذين يدعون ينتعُون إِلى رَبِّهم الوسيلة)ہیں کہ دعا کرتے اپنے رب کی طرف وسیلہ ڈھونڈتے ہیں۔ اور آدم علیہ الصلوۃ والسلام و دیگر انبیاء و صلحا ، وعلماء وعرفا عليهم التحية والثناء كا قديما وحد یثا حضور اقدس غايۃالغايات، نہايۃ النبايات علیہ افضل الصلوة واکمل التسلیمات سے حضور کے ظہور پر نور سے پہلے اور بعد بھی حضور کے زمان برکت نشان میں اور بعد بھی عہد مبارک صحابہ و تابعین سے آج تک اور آج سے قیام قیامت و عرصات محشر و دخول جنت تک ” استشفاع و توسل ”احادیث و آثار میں جس قدر وفور و کثرت و ظہور و شہرت کے ساتھ وارد محتاج بیان نہیں ، جسے اس کی گونہ تفصیل دیکھنی
منظور ہو مواہب لدنیہ امام قسطلانی و خصائص کبرائے امام جلال الدین سیوطی و شرح مواہب علامہ زرقانی و مطالع المسرات علامہ فای دلمعات واشعہ شروح مشكوة وجذب القلوب الى ديار الحبوب و مدارج النبوة نسا نیف شیخ محقق مولانا عبد احق صاحب ، دہلوی وغیر ہا کتب و کلام علمائے کرام و فضلائے عظام علیہم رحمہ العزیز العلام کی طرف رجوع لائے کہ وہاں حجاب غفلت منکشف ہوتا ہے اور مصنف خطا سے منصرف ۔ اسی طرح صحیح بخاری شریف میں امیر المؤمنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا سید نا عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے طلب باراں( طلب بارش ) سے توسل کرنا مردی و مشہور حصن حصین میں ہے ”وان يتوسل إلى الله تعالى بالبياه -رمس و الصالحين من عباده ” یعنی آداب دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف اس کے انبیاء سے توسل کرے ۔ اسے بخاری و بزاز و حاکم نے امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا اور اللہ کے نیک بندوں کا وسیلہ پکڑے ، اسے بخاری نے انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا۔
مزید پڑھیں:حضرت عتبہ بن غزوان کا تقوی اور عدالت
( حصن حصین، ص 18 ،افضل المطابع ،انڈیا)
اور سب سے زیادہ وہ حدیث صحیح و مشہور ہے جسے نسائی و ترندی وا اورنگ و ابن ماجه و حاکم و بیہقی و طبرانی و ابن خزیمہ نے عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ۔ ۔ ۔ جس میں حضور اقدس ملجاء بیکساں ، ملاؤ دو جہاں ، افضل صلوات اللہ تعالی و تسلیماتہ علیہ وعلی ذریاتہ نے نا بینا کو دعا تعلیم فرمائی رمائی کہ بعد نماز کہے” اللهم اني اسئلك والتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة ( صلى الله تعالى عليه وسلم ) يا محمد اني أتوجه بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضى لي اللهم فشفعہ فی ”الہی میں تجھ سے مانگتا اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں بوسیلہ تیرے نبی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے کہ مہربانی کے نبی ہیں یا رسول اللہ ! میں حضور کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف اس حاجت میں توجہ کرتا ہوں کہ میری حاجت روا ہو ، الہی ! ان کی شفاعت میرے حق میں قبول فرما۔
المعجم الکبیر الطبرانی میں ہے” ان رجلا كان يختلف الى عثمن بن عفان رضي الله تعالى منه في حاجة له فكان عثمن لا يلتفت اليه ولا ينظر في حاجته فلقى عثمن بن حنيف رضي المتعالى عنه فشكا ذلك اليه فقال له عثمن بن حنيف ائت الميضأة فتوضأ ثم انت المسجد فصل فيه ركعتين ثم قل اللهم اني اسألك والتوجه إليك بنبينا محمد صلى الله تعالى عليه وسلم نبي الرحمة، يا محمد اني اتوجه بك إلى ربي فتقضي لي حاجتي، وتذكر حاجتك ورح الى حتى اروح معك، فأنطلق الرجل فصنع ما قال له ثم أتى باب عثمان رضى الله تعالى عنه فجاء البواب حتى احده بيده فأدخله على عثمن بن عفان رضی الله تعالى عنه فأجلسه معه على الطنفة، فقال حاجتك فذكر حاجته فقضاه . ثم قال: ما ذكرت حاجتك حتى كانت هذه الساعة وقال ما كانت لك من حاجة فاذكرها ثم ان الرجل خرج من عنده فلقي عثمن بن حنیف رضی الله تعالى عنه فقال له جزاك الله خيرا، ما كان ينظر في حاجتي ولا يلتفت الي حتى كلمته في، فقال عثمن بن حنیف رضی الله تعالى عنه والله ما كلمته ولكن شهدت رسول الله صلى اللمتعالى عليه وسلم واتاه رجل ضرير فشكا اليه ذهاب بصره، فقال له النبي صلى الله تعالى عليه وسلم انت الميضأة فتوضأ ثم صل ركعتين ثم ادع بهذه الدعوات، فقال عثمن بن حنيف فوالله ما تفرقنا وطال بنا الحديث حتى دخل علينا الرجل كانه لم يكن به ضر قط ”
یعنی ایک حاجتمند اپنی حاجت کے لئے امیر المومنین عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں آتا امیر المومنین نہ اس کی طرف التفات کرتے نہ اس کی حاجت پر نظر فرماتے ، اس نے عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالی عنہ سے اس امر کی شکایت کی انہوں نے فرمایا وضو کر کے مسجد میں دو رکعت نماز پڑھ پھر یوں دعا مانگ :الہی ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف اپنے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی رحمت کے وسیلے سے توجہ کرتا ہوں یا رسول اللہ ! میں حضور کے توسل سے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہوں کہ میری حاجت روا فر مائے اور اپنی حاجت کا ذکر کر ، شام کو پھر میرے پاس آنا کہ میں بھی تیرے ساتھ چلوں ، حاجت مند نے یوں ہی کیا پھر آستان خلافت پر حاضر ہو اور بان آیا اور ہاتھ پکڑ کر امیر المومنین کے حضور لے گیا امیر المومنین نے اپنے ساتھ مسند پر بٹھایا مطلب پوچھا، عرض کیا فوراً روافر مایا اور ارشاد کیا اتنے دنوں میں اس وقت تم نے اپنا مطلب بیان کیا پھر فرمایا جو حاجت تمہیں پیش آیا کرے ہمارے پاس چلے آیا کرو۔
یہ شخص وہاں سے نکل کر عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالی عنہ سے ملا اور کہا اللہ تمہیں جزائے خیر دے امیر المومنین میری حاجت پر نظر اور میری طرف التفات نہ فرماتے تھے یہاں تک کہ آپ نے ان سے میرے بارے میں عرض کی ، عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا خدا کی قسم میں نے تو تیرے معاملے میں امیر المومنین سے کچھ بھی نہ کہا مگر ہوا یہ کہ میں نے سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو دیکھا حضور کی خدمت اقدس میں ایک نابینا حاضر ہوا اور نا بینائی کی شکایت کی حضور نے یوں ہی اسے ارشاد فرمایا کہ وضو کر کے دور کعت پڑھے پھر یہ دعا کرے، خدا کی قسم ہم اٹھنے بھی نہ پائے تھے۔ باتیں ہی کر رہے تھے کہ وہ ہمارے پاس آیا گویا کبھی اندھا ہی نہ تھا۔ امام منذری ترغیب میں فرماتے ہیں ”قال الطبراني بعد ذكر طرقه والحدیث صحیح” طبرانی نے اس حدیث کی متعدد اسناد یں ذکر کر کے کہا حدیث صحیح ہے۔
مزید پڑھیں:کیا قضاء نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کر سکتے ہیں؟
(الترغيب والترہيب ،ج 1 ،ص 476 ،مصطفی البابی،مصر:
اور سنئے ابن السنی عبداللہ بن مسعود اور بزار عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہم سے راوی حضور اقدس ﷺفرماتے ہیں” اذا انفلتت دابة احدكم بارض فلاة فليناه يا عباد الله احبسوا فان الله تعالى عبادا في الأرض تحبسه ”جب تم میں کسی کا جانور جنگل میں چھوٹ جائے تو چاہئے یوں ندا کرے” اے خدا کے بند و! روک لو ”کہ اللہ تعالی کے کچھ بندے زمین میں ہیں جو اسے روک لیں گے۔
( المعجم الکبیر،ج 10 ،ص 267 ،مکتبہ فصلیہ ،بیروت )
ہزار کی روایت میں ہے یوں کہئے” عینوا یا عباد الله ” مدد کرواے خدا کے بندو!۔ سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہا ان لفظوں کے بعد ر حمكم الله ( اللہ تم پر رحم کرے ) اور زیادہ فرماتے و رواہ ابن شيبة في مصنفه (اسے ابن شیبہ نے اپنی مصنف میں روایت کیا )
(ألمصنف لابن ابی شيبہ ،ج 10 ،ص 390، اداردۃ القرآن ،کراچی )
امام نووی رحمہ اللہ تعالی اذکار میں فرماتے ہیں” ہمارے بعض اساتذہ نے کہ عالم کبیر تھے ایسا ہی کیا، چھوٹا ہوا جانور فور ارک گیا، اور فرماتے ہیں: ایک بار ہمارا ایک جانور چھٹ گیا ، لوگ عاجز آگئے ہاتھ نہ لگا، میں نے یہی کلمہ کہا فور رک گیا جس کا اس کہنے کے سوا کوئی سبب نہ تھا”۔
(الا ذ کار للنووی،ص210 ،دار الکتاب العربیۃ، بیروت)
امام طبرانی سید نا عتبہ بن غزوان رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی حضور پر نو رسید العالمین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں” اذا اصل احدكم شيئا واراد عونا وهو بارض ليس بها انیس فليقل يا عباد الله اعینونی یا عباد الله اعینونی یا عباد الله اعینونی فان الله عبادا لا يراهم ” جب تم میں سے کوئی شخص سنسان جگہ میں بہکے بھولے یا کوئی چیز گم کر دے اور مدد مانگنی چاہے تو یوں کہے: اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو، اے اللہ کے بندو ! میری مدد کرو، اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو، کہ اللہ کے کچھ بندے ہیں جنہیں یہ نہیں دیکھتا۔
( المعجم الکبیر، ج10،ص 117 ،مکتبہ فیصلیہ، بیروت)
ان احادیث میں جن بندگان خدا کو وقت حاجت پکارنے اور ان سے مدد مانگنے کا صاف حکم ہے وہ ابدال ہیں کہ ایک قسم ہے اولیا ئے کرام سے ۔۔ یہی قول اظہر وا شہر ہے كما نص عليه في الحرز الوصين ( جیسا کہ حرز الوصین میں اس کی تصریح کی گئی ہے )۔ اور ممکن کہ مالائکہ یا مسلمان صالح جن، مراد ہوں وکیفما کان ایسے تو سل دندا کو شرک و حرام اور منافی تو کل و اخلاص جاننا معاذ اللہ شرع مطہر کو اصلاح دینا ہے۔ خیر یہ تو حدیثیں تھی اب شاہ ولی اللہ صاحب کی سنئے اپنے قصیدہ اطیب النغم کی شرح میں پہلی بسم اللہ یہ لکھتے ہیں کہ” ار الاسدست از استمداد بروح انحضرت صلى الله تعالى عليه وسله “ترجمہ: حضور ﷺکی روح پاک سے مدد حاصل کرنا ضروری ہے
(شرح قصید ہ اطیب النغم ،ص 2 ،مطبع مجتبائی ،دہلی )
اس میں ہے” بنظر نمی آید مرامگر آنحضرت صلی الله تعالی علیه وسلم کی جائے دست زدن اندوهگین است در هر شدنی ”ترجمہ: مجھے تو ہر مصیبت میں اور ہر پریشان حال کے لئے حضور ﷺ کا دست تصرف ہی نظر آتا ہے۔بالجملہ بندگان خدا سے توسل کو اخلاص و توکل کے خلاف نہ جانے گا مگر سخت جاہل محروم یا ضال مکا بر ملوم
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 584 تا 593