جمعہ کس قسم کی آبادی میں ہو سکتا ہے؟
:سوال
جمعہ کس قسم کی آبادی میں ہو سکتا ہے؟
:جواب
فرضیت دصحت و جو از جمعہ سب کے لئے اسلامی شہر ہونا شرط ہے، جوجگہ بستی نہیں جیسے بن سمندریا پہاڑ ی بستی ہے مگر شہر نہیں جیسے دیہات، یا شہر ہے مگر اسلامی نہیں جیسے روس فرانس کے بلاد، اُن میں جمعہ فرض ہے نہ صحیح نہ جائز بلکہ ممنوع باطل و گناہ ہے اس کے پڑھنے سے فرض ظہر ذمہ سے ساقط نہ ہوگا، شہر ہونے کے لئے یہ چاہئے کہ اس میں متعدد کو چے متعدد دائمی بازار ہوں، وہ پرگنہ ہو کہ اس کے متعلق دیہات گنے جاتے ہوں کہ موضع فلاں فلاں و فلاں پر گنہ شہر فلاں اور اُس میں کوئی حاکم یا فیصلہ مقدمات کا اختیار من جانب سلطنت رکھتا ہو دونوں باتیں عادہ متلازم ہیں سلطنت جسے پر گنہ قرار دیتی ہے ضرور اس میں کوئی حاکم لا اقل منصف یا تحصیلدار رکھتی ہے اور جہاں سلطنت کوئی کچہری قائم کرتی ہے
اسے ضرور ضلع یا کم از کم پرگنہ بتاتی ہے اور عادۃپہلی دو باتیں بھی ان دو کو لازم ہیں، جو پر گنہ ہوتا ہے جہاں کچہری مقرر ہوتی ہے وہاں ضرور متعدد بازار متعدد کوچے ہوتے ہیں۔اور شہر کے اسلامی ہونے کے لئے یہ ضرور ہے کہ یا تو فی الحال اُس میں سلطنت اسلام ہو خود مختار، جیسے بحمد اللہ تعالیٰ سلطنت علیہ عالیه عثمانیه و دولت خدا داد افغانستان حفظهما الله تعالى عن شرور الزمان یا کسی سلطنت کفر کی تابع جیسے اب چند روز سے سلطنت بخارا، و حسبنا الله و نعم الوکیل ( ہمیں اللہ تعالی کافی ہے اور وہی سب سے بہتر کارساز ہے ) اور اگر فی الحال نہ ہو تو دو با تیں ضرور ہیں ایک یہ کہ پہلے اُس میں سلطنت اسلامی رہی ہو۔
مزید پڑھیں:ایک مسجد میں دو جمعے ادا نہیں ہو سکتے
دوسرے یہ کہ جب سے قبضہ کافر میں آئی شعار اسلام مثل جمعہ و جماعت و اذان و قامت و غیر ہا کل یا بعضا برابر اُس میں اب تک جاری رہی ہوں۔ جہاں سلطنت اسلامی بھی نہ تھی نہ اب ہے وہ اسلامی شہر نہیں ہو سکتے نہ وہاںجمعہ وعیدین جائز ہوں اگر چہ وہاں کے کافر سلاطین شعائر اسلامیہ کونہ روکتے ہوں اگر چہ وہاں مساجد بکثرت ہوں اذان واقامت جماعت علی الاعلان ہوتی ہو اگر چہ عوام اپنے جہل کے باعث جمعہ وعیدین بلا مزاحمت ادا کرتے ہوں جیسے کہ روس فرانس و جرمن و پرتگال وغیر ہا اکثر بلکہ شاید کل سلطنت ہائے یورپ کا یہی حال ہے یونہی اگر پہلے سلطنت اسلامی تھی پھر کافر نے غلبہ کیا اور شعائر کفر جاری کر کے تمام شعائر اسلام یکسر اٹھا دئے تو اب وہ شہر بھی اسلامی نہ رہے
اور جب تک پھر از سرنو ان میں سلطنت اسلامی نہ ہو وہاں جمعہ و عیدین جائز نہیں ہو سکتے اگر چہ کفار غلبہ یافتہ ممانعت کے بعد پھر بطور خود شعائر اسلام کی اجازت دے دیں خواہ ان کافروں سے دوسرے کا فر چھین کر اجرائے شعائر اسلام کر دیں کہ کوئی غیر اسلامی شہر مجرد جریان شعائر اسلام سے اسلامی نہیں ہو جاتا ، ہاں اگر اسلامی سلطنت کے کسی کا فرصوبہ نے بغاوت کر کے کسی اسلامی شہر پر تسلط کیا اور شعائر اسلام بالکل اٹھا دیئے مگر وہ صوبہ سے سلطنت اسلامیہ میں محصور ہے تو وہ شہر شہر اسلامی ہی رہے گا کہ اگر چہ کافر نے شعائر اسلام یکسر اٹھائے مگر چارسمت سے سلطنت اسلامیہ میں محصور ہونے کے اُس کی یہ تاریک حالت محض عارضی ہے۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 377

READ MORE  Fatawa Rizvia jild 06, Fatwa 727, 728
مزید پڑھیں:مصر و قریہ جس میں جمعہ ہو جاتا ہے اس کی شرعاً کیا تعریف ہے؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top