:سوال
قلعہ کلکتہ میں دروازوں پر پہرہ رہتا ہے اور دس پانچ کیا سو پچاس آدمی بغرض سیر جائیں یا دوسری غرض سے مثلا کسی کے ملاقات کو ،تو کوئی مانع و مزاحم نہیں ہوتا، تین چار ہزار مزدور اندر کام کرتے ہیں جو صبح کو بے روک ٹوک اندر جاتے اور باہر آتے ہیں، ہاں شب . کے ساڑھے نو بجے سے عام لوگ پانچ بجے تک اندر نہیں جاسکتے اندر بازار بھی ہے جو چاہے باہر سے اشیاء خریدنے کو جائے کچھ ممانعت نہیں ، ہاں یہ قاعدہ ہے کہ باہر سے جو چاہے جو چیز چاہے اندر لے جائے مگر اندر سے بغیر پاس کے کوئی چیز باہر نہیں لاسکتا، پہلے مسلمان بکثرت تھے، نماز با جماعت ہوتی تھی
اب ہندو بہت ہیں، مسلمان قریب ستر کے ہوں گے، انھوں نے کرنیل سے درخواست کی کہ ہم اپنا مولوی نماز پڑھانے کی غرض سے رکھنا چاہتے ہیں اس نے اجازت دی اور انھوں نے رکھ لیا، ایک مسلمان نے بعض مسائل میں دوسرے مسلمان سے حجت کی اور مار پیٹ ہوئی، کرنیل نے اُس تنہا مسلمان کو ان کی جماعت میں شریک ہونے سے ممانعت کر دی اور ان سب سے کہہ دیا اگر یہ شخص تمھاری نماز کی جگہ آئے تو اس کو قید کر لو اور ہمارے پاس پہنچا دو، ایسی حالت میں نماز جمعہ قلعہ کے اندرادا ہو جائے گی یا نہیں؟
:جواب
اذن عام کہ صحت جمعہ کے لئے شرط ہے، اُس کے یہ معنی کہ جمعہ قائم کرنے والوں کی طرف سے اُس شہر کے تمام اہلِ جمعہ کے لئے وقت جمعہ حاضری جمعہ کی اجازت عام ہو تو وقت جمعہ کے سوا باقی تمام اوقات نماز میں بھی بندش ہو تو کچھ مصر نہیں نہ کہ صرف رات کے ساڑھے نو بجے سے صبح پانچ بجے تک، کتب مذہب میں تصریح ہے کہ بادشاہ اپنے قلعہ یا مکان میں حاضری جمعہ کا اذن عام دے کر جمعہ پڑھے تو صحیح ہے حالانکہ قصر و قلعہ شاہی عام اوقات میں گزرگاہ عام نہیں ہو سکتے۔ اور بے پاس کسی چیز کی باہر لانے کی ممانعت تو یہاں سے کچھ علاقہ ہی نہیں رکھتی ہے کہ وہ خروج سے منع ہے نہ دخول سے
یونہی مزدوروں یا سیر والوں یا خریداروں کو اجازت عام ہونا کچھ مفید نہیں کہ وقت نماز بہر نماز اہل نماز کو اجازت چاہیے اوروں کو ہونے نہ ہونے سے کیا کام، اور اذن اگر چہ انھیں لوگوں کا شرط ہے جو اس جمعہ کی اقامت کرتے ہیں۔۔۔ مگر پر ظاہر کہ تحقق معنی اذن کے لئے اُس مکان کا صالح اذن عام ہونا بھی ضرور، ورنہ اگر کچھ لوگ قصر شاہی یا کسی امیر کے گھر میں جمع ہو کر باذان و اعلان جمعہ پڑھیں اور اپنی طرف سے تمام اہل شہر کو آنے کی اجازت عامہ دے دیں مگر بادشاہ امیر کی طرف سے دروازوں پر پہرے بیٹھے ہوں عام حاضری کی مزاحمت ہو تو مقیمین کا وہ اذنِ عام نہیں ہو سکتا۔ پس مانحن فیہ میں دو باتیں محلِ نظر رہیں
مزید پڑھیں:جمعہ کے بعد احتیاطی ظہر پڑھنے کی ضرورت ہے یا نہیں؟
: اولا
اس قلعہ کا صالح اذن عام ہونا یعنی اگر تمام اہل شہر اس قلعہ میں جمعہ پڑھنا چاہیں تو کوئی ممانعت نہ کرے۔۔۔ اگر ایسا ہے تو بیشک وہ قلعہ صالح اذن عام ہے اور ایسی حالت میں دروازہ پر چوکی پہرہ ہونا کچھ مضر نہ ہوگا کہ پہر اوہی مانع ہے جو مانع دخول ہو۔ تو صرف شوکت شاہی یا اس قانون کی رعایت کو کہ بے پاس کوئی اندر سے باہر نہ جائے ، پہرا ہونا مکان کو صلاحیت اذن عام سے خارج نہیں کرتا اور اگر اجازت سو پچاس یا ہزار دو ہزار کسی حد تک محدود ہے جیسا کہ بعض الفاظ سوال سے مستفاد، اگر تمام جماعات شہر جانا چاہیں نہ جانے دیں گے تو وہ مکان بندش کا ہے اس میں جمعہ نہیں ہو سکتا۔
:ثانياً
اگر ثابت ہو جائے کہ یہ قلعہ اذن عام کا مکان ہے تو جب تک کسی شخص خاص کو حاضری نماز سے ممانعت نہ تھی جمعہ بیشک صحیح ہو جاتا تھا اب کہ اس ملازم جرنیل کو منع کیا گیا تو محل نظر ہے کہ یہ ممانعت ان مقیمان جمعہ کی طرف سے بھی ہے یا نہیں۔ اگر یہ اُسے جمعہ میں آنے سے منع نہیں کرتے اگر چہ اور نمازوں میں مانع ہوں اگر چہ کرنیل نے اُسے جمعہ سے بھی جبرا رو کا ہویا وہ خود بخوف کرنیل نہ آتا ہوتو ان صوتوں میں بھی صحت جمعہ میں شک نہیں کہ جب مقیمین جمہ کی طرف سے اذن عام اور وہ مکان بھی اذن عام کا ۔
مزید پڑھیں:جمعہ کے دو فرضوں کے سوا کتنے رکعت نماز سنت پڑھنا چاہئے؟
صالح تو کسی شخص کو غیر جمعہ سے تو رو کنا یا جمعہ میں اس کا خود آنا یا کس کا جبرا اسے باز رکھنا قاطع اذن عام نہیں ہو سکتا جیسے زندانی لوگ کہ ہمیشہ حضوری مساجد سے ممنوع ہوتے ہیں یا اگر کوئی شخص بعض نمازیوں کو خاص وقت نماز اس لئے مقید کرلے کہ مسجد میں نہ جانے پائیں تو نہ یہ قادح اذن عام نہ مقمان جمعہ پر اس کا الزام، بلکہ ظاہر ممانعت کرنیل بھی کوئی اپنی طرف سے حکم جبری نہیں انھیں پلٹن والوں کی خاطر سے ہے اور انھیں کی مرضی پر رکھا ہے جب یہ مزاحمت نہیں کرتے تو کرنیل کو پرخاش سے کیا مطلب۔ اور اگر یہ خود اُسے حاضری جمعہ سے باز رکھتے ہیں تو دیکھنا چاہئے کہ وہ شخص فی الواقع شریر و مفسد و موذی ہے کہ اُس کے آنے سے اندیشہ فتنہ ہے جب تو ایسی ممانعت بھی مانع صحت جمعہ نہ ہوگی کہ قادح اذن عام سے روکنا ہے۔۔۔ اور یہ روکنا
در حقیقت نماز سے روکنا نہیں بلکہ فتنہ سے بندش ہے۔ علماء خود فرماتے ہیں کہ موزیوں کو مساجد سے روکا جائے ۔۔۔ تو یہ روکنا کہ مطابق شرع ہے منافی اون نہیں، اور اگر ایسا نہیں بلکہ یہ لوگ محض ظلما بلا وجہ یا براہ تعصب روکتے ہیں تو بلا شبہ ان کا جمعہ باطل کہ ایک شخص کی ممانعت بھی اذن عام کی مبطل ۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 288 تا 291