مصر و قریہ جس میں جمعہ ہو جاتا ہے اس کی شرعاً کیا تعریف ہے؟
:سوال
مصر و قریہ جس میں جمعہ ہو جاتا ہے اس کی شرعاً کیا تعریف ہے؟
:جواب
قریہ زبان عربی میں شہر کو بھی کہتے ہیں۔۔ اور جب اسے مصر (شہر) کے مقابل بولیں تو اس میں اور(دیہات ) میں کچھ فرق نہیں ۔۔۔ مصرو قریہ کوئی منقولات شرعیہ مثل صلوۃ وز کو ۃنہیں جس کو شرع مطہر نے معنی متعارف سے جدا فرما کر اپنی وضع خاص میں کسی نئے معنی کے لئے مقرر کیا ہو ورنہ شارع صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے اس میں نقل ضرور ہوتی کہ وضع شارع بے بیان شارع معلوم نہیں ہو سکتی اور شک نہیں کہ یہاں شارع صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے اصلاً کوئی نقل ثابت و منقول نہیں تو ضرور عرف شرع میں وہ انھیں معانی معروفہ متعارفہ پر باقی ہیں
اور ان سے پھیر کر کسی دوسرے معنی کے لئے قرار دینا دہ قرار و ہندہ کسی آبادی کو دیہات قرار دینے والے) کی اپنی اصطلاح خاص ہوگی جو مناط و مدارا حکام و مقصود و مراد شرع نہیں ہوسکتی۔ اور ظاہر کہ معنی متعارف میں شہر و مصر و مد ینہ اسی آبادی کو کہتے ہیں جس میں متعدد کوچے، محلے متعدد و دائگی بازار ہوتے ہیں ، وہ پرگنہ ہوتا ہے اس کے متعلق دیہات گنے جاتے ہیں ، عادہ اس میں کوئی حاکم مقرر ہوتا ہے کہ فیصلہ مقدمات کرے، اپنی شوکت کے سبب مظلوم کا انصاف ظالم سے لے سکے۔ اور جو بستیاں ایسی نہیں وہ قریہ ودہ و موضع وگاؤں کہلاتی ہیں، شرعاً بھی یہی معنی متعارفہ مراد و مدار احکام جمعہ وغیر ہا ہیں،
مزید پڑھیں:چار رکعت احتیاطی ظہر کا ادا کرنا مستحب ہے یا واجب یا فرض؟
ولہذا ہمارے امام اعظم و ہمام اقدم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے شہر کی یہی تعریف ارشاد فرمائی ۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ جمعہ اسلامی حکم ہے اس کے لئے اسلامی شہر کا ہونا ضروری ہے ولہذا دار الحرب میں اصلا جمعہ نہیں اگر چہ کتنے ہی بڑے امصار عظام کبار ہوں جس میں دس دس لاکھ آدمیوں کی آبادی ہو۔ نہ اس وجہ سے کہ وہ شرعا شہر نہیں ، اصطلاح شرع میں وہ گاؤں ہیں ، حاشا یہ محض غلط ہے قیامت تک کوئی ثبوت نہیں دے سکتا کہ شرع مطہر نے کفار کے امصار کبار کو مصرو مدینہ سے خارج اور وہ گاؤں بتایا ہو اس بنا پر کہ وہاں اقامت حدود و تنفیذ احکام شرع نہیں، رسول اللہ صل اللہ تعالی علیہ وسلم کی جب بعثت ہوئی مکہ معظمہ بلکہ تمام دنیا میں جیسا کہ کفر و کافرین کا تسلط و غلبہ تھا ظاہر و عیاں ہے
اوراکثر مرسلین کرام اصحاب شرائع جدیدہ علیہم الصلوۃ والسلام ایسے ہی شہروں میں پیدا ہوتے ہیں اور وہیں کے ساکن ہو کر انھیں پر مبعوث ہوتے اب کیا معاذ اللہ یہ کہا جائے گا کہ شرعا یہ مرسلین صلوات اللہ تعا لی وسلامہ علیہم اجمعین دیہاتی تھے حالانکہ اللہ عز وجل فرماتا ہے واما ارسلنا من قبلك الارجالا نوحى اليهم من اهل القرى ) ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے وہ سب مرد اور شہری ہی تھے، ان میں کوئی عورت نہ تھی نہ کوئی گنوار بھی۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جس وقت غلبہ کفار کے سبب مکہ معظمہ سے ہجرت کی ضرورت ہوئی اس وقت بھی قرآن عظیم نے مکہ مکرمہ کو شہر ہی فرمایا وكاين من قرية هي اشدقوة من قريتك التي اخرجتك اهلكنهم فلا ناصر لهم ) بہتیرے شہر کو تمھارے اس شہر سے جس نے تم کو نکالا زیادہ قوت والے تھے
مزید پڑھیں:عید گاہ میں جمعہ ادا کرنا جائز ہے یا نہیں؟
ہم نے ہلاک کر دئے تو ان کا کوئی مددگار نہیں۔ بلکہ وجہ صرف یہ ہے کہ دارالحرب کے شہر کفر کے شہر ہیں اور اقامت جمعہ کو اسلامیہ شہر در کار، اسی طرف نظر کرم فرما کر کلام قدماء میں جبکہ اسلام کا دور دورہ تھا اور اسلامی شہر اسلامی احکام کے پابند تھے ، لہ امیر وقاض ينفذ الاحكام ويقيم الحدود (وہاں کوئی امیر یا قاضی ہوجو احکام نافذ اور جاری کر سکے ) واقع ہوا، اس سے مقصود ہی تھا کہ اسلامی شہر کہ اس وقت اسلامی شہر ایسے ہی ہوتے تھے، یہ معنی نہ تھے کہ تنفیذ احکام واقامت حدود حقیقت شہر میں داخل ہے۔ یہ نہ ہو شہر شرعا شہری نہ رہے گا گاؤں ہو جائے گا حالانکہ فتنہ بلوائیان مصر میں خاص زمانہ خلافت راشدہ میں چند روز تنفیذ احکام نہ ہوئی کیا اُس وقت مدینہ طیبہ گاؤں ہو گیا تھا اور اس میں جمعہ پڑھنا حرام باطل ہوا تھا؟
حاشا ہرگز ایسا نہیں ، خود یہی علماء تصریح فرماتے ہیں کہ ایام فتنہ میں اقامت جمعہ ہوگی اور شہر شہر بہت سے خارج نہ ہوگا۔ تو آفتاب کی طرح روشن ہوا کہ صرف اسلامی شہر ہونا درکار ہے تنفیذ احکام یا اقامت حدود یا اسلام والی کچھ شرط نہیں اور بحمد اللہ تعالی ہم نے اپنے فتاری میں دلائل قاہرہ سے ثابت کیا ہے کہ تمام ہندوستان سرحد کابل سے منتہائے بنگالہ تک سب دار الاسلام ہے تو یہاں جتنے شہر و قصبات میں ( جن کو شہر کہتے ہیں اور وہ نہ ضرور ایسے ہی ہوتے ہیں جن میں متعدد محلے، متعدد ودائمی بازار ہیں ، وہ پرگنہ ہیں ، ان کے متعلق دیہات ہیں، اُن میں ضرور کوئی حاکم فصل مقدمات کیلئے مقرر ہوتا ہے جسے ڈگری ڈسمس کا اختیار ہے نہ فقط تھا نہ دار کہ وہ کوئی حاکم نہیں صرف حفاظت اور تحقیقات یا چالان کا مختار ہے ) وہ ضرور سب اسلامی شہر ہیں اور ان میں جمعہ فرض ہے اور انھیں میں جمعہ صحیح ہے۔ ان کے علاوہ جتنی آبادیاں ہیں گاؤں ہیں اگر چہ مکانات پختہ اور مسلمان و مساجد بکثرت ہوں ان میں نہ جمعہ فرض نہ جائز نہ صحیح، یہ حق تحقیق و تحقیق حق ہے جس سے سر موحق متجاوز نہیں۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 366

READ MORE  Fatawa Rizvia jild 05, Fatwa 268
مزید پڑھیں:امام ابو یوسف کی روایت پر دیہات میں جمعہ قائم کرنا؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top