جماعت سے پہلے اپنی جماعت کروا کر نماز پڑھنا کیسا؟
:سوال
اکثر دیکھا جاتا ہے کہ بعض لوگ مسجد میں آتے ہیں اور جماعت اولی پڑھی نہیں گئی اور امام کے حاضر ہونے میں ابھی کچھ وقفہ ہے وہ اپنے کام کے واسطے امام معین کا انتظار نہیں کرتے ، اور اپنی جماعت کروا کر چلے جاتے ہیں، ان کا یہ فعل کیسا ہے؟
:جواب
:جو لوگ جماعت معینہ سے پہلے جماعت کر کے چلے جائیں اس میں چند صورتیں ہیں
اگر امام معین محلہ میں واقعی کوئی معذور شرعی ہے مثلاً وضو طہارت کا ٹھیک نہ ہونا یا تجوید وقرآت میں ایسی غلطی کہ مورث فساد نماز ( نماز فاسد کرنے والی ) ) ہو یا معاذ الله بد مذہبی مثل وہابیت و غیر مقلدی و غیر ہما یا فستق بالاعلان مثلاً داڑھی حد شرع سے کم رکھنا تو ان تین صورتوں میں ان لوگوں پر کوئی الزام نہیں بلکہ اسی جماعت محلہ پر الزام ہوگا جو ایسے امام نا قابل امامت یا ممنوع التقدیم کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں۔ یونہی اگر وہ مسجد کسی خاص جماعت کی مسجد نہ ہو جیسے مسجد شارع وسرا واسٹیشن ، جب بھی کوئی الزام نہیں کہ وہاں امام معین ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا جو جماعت آئے جدا اذان کہے اور جدا قامت کرے اور اپنے سے ایک شخص صالح امامت کو امام بنا کر جماعت پڑھے یہ سب جماعتیں جماعت اولی ہوں گی ان میں سے کسی دوسرے پر ترجیح نہیں۔ اور اگر مسجد محلہ ہے جس کے لئے امام و جماعت معین ہے۔
مزید پڑھیں:جماعت کثیر اور قلیل میں سے کون سی اولی ہے؟
اور امام میں کوئی معذور شرعی نہیں اور چند لوگ اپنی کسی ضرورت خاصہ شرعیہ سے پیش از جماعت نماز پڑھ کر جانا چاہتے ہیں مثلاً کہیں انہیں جانے کی ضرورت جائزہ ہے اور جماعت کا انتظار کریں تو ریل کا وقت جاتا رہے گا ایسی صورت میں بھی ان کو اجازت ہوگی کہ باہم جماعت کر کے چلے جائیں کہ شرع نہ ان کو یہ حکم دے گی کہ جماعت کا انتظار کرو اور ریل نکل جانے دونہ یہ حکم دے گی کہ جبکہ تم جماعت کا انتظار نہیں کر سکتے (تو) الگ الگ پڑھو اور جماعت نہ کرو نہ اس جماعت میں منصب امام معین سے کوئی منازعت ہوگی کہ وہ محلہ کی جماعت اولی کا امام معین ہے، اہل محلہ کے لئے جماعت اولی وہی ہوگی جو وہ اپنے امام کے ساتھ اپنے وقت معین پر پڑھیں گے، ان چند آدمیوں کا بضرورت پہلے جماعت کر جانا ان کے ثواب جماعت میں کچھ کمی نہ کرے گا اور جب منازعت نہیں تو استیذ ان امام ( اجازت امام ) کی بھی حاجت نہیں۔
پھر بھی احسن یہ ہے کہ محراب سے ہٹ کر جماعت کریں تا کہ صورت معارضہ سے بچیں اور باعث تنفیر دوحشت امام معین نہ ہو اور اگر ان کی کوئی ضرورت شرعیہ نہیں تو ضرور مورد الزام شرعی ہیں کہ مرتکب تفریق جماعت ہوئے پھر نیت کے اختلاف سے حکم اشد ہوتا جائے گا مثلا اپنے کسی لہو و لعب مباح کی جلدی کے باعث جماعت کر گئے تو صرف تفریق جماعت کا الزام ہے اور اگر کسی لہو ولعب نا جائز کی جلدی تھی یا کسی نا جائز جگہ جانے والے تھے اور وقت ریل کے سبب جلدی کی تو الزام دو چند ہے اور اگر اپنی بد مذہبی کے باعث امام سنی صحیح العقیدہ صالح امامت کے پیچھے نماز نہ پڑھنی چاہی تو الزام سب میں سخت تر ہے۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 141

READ MORE  Fatawa Rizvia jild 03, Fatwa 91
مزید پڑھیں:امام کے مصلی کو کسی دوسرے شخص کا استعمال کرنا کیسا ہے؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top