:سوال
ایک جگہ میں عرصہ کثیر گزرا زمانہ بادشاہت اسلام میں قاضی شرع نے جو قاضی با اختیار تھے جامع مسجد قائم کی ۔ اور وہ مقام شرائط جمعہ کے موافق مناسب سمجھ کر نماز جمعہ و نماز عیدین اسی مسجد میں ہوتی رہی اور مسلسل اُسی وقت سے حسب اجازت و ہدایت اصل قاضی یا حاکم وقت مذکور کے اُسی خاندان میں امامت رہی اب ایک شخص نے چند دنیاوی امور میں مخالفت کے سبب امام سے رنج کر کے ایک دوسری مسجد میں جو تھوڑے زمانے سے تیار ہوئی ہے
نماز عید ادا کی اور باشندگان دیہ کو جامع مسجد قدیم کو آنے سے روک کر بہکا کر بہت سے اشخاص کو اس نماز میں شریک کیا اور نماز پڑھائی اور جامع مسجد قدیم میں بھی مثل قدیم نماز پڑھی گئی اور جماعت ہوئی۔ تو اب دریافت طلب ہے کہ اس مسجد جدید میں امام قدیم سے مخالفت کر کے نماز عید ہوئی یا نہیں ؟ اور ایسے نماز پڑھوانے والے کے واسطے جو تفریق جماعت کا مرتکب ہوا کیا حکم ہے اور آئندہ اس طریقہ سے نماز ہوگی یا نہیں؟
: جواب
جمعہ وعیدین و کسوف میں ہر شخص امامت نہیں کر سکتا بلکہ لازم ہے کہ سلطانِ اسلام کا مقرر کردہ یا اُس کا ماذون ہو، ہاں جہاں یہ نہ مل سکیں تو بضرورت عام اہل اسلام کسی کو امام مقرر کر لیں ، صورت سوال میں جبکہ سلطنت اسلام سقسی اللہ تعالی عهدها (اللہ تعالی اس کی مدت کو دراز فرمائے ) سے بحکم حاکم شرع وہاں جمعہ قائم اور امامت خاندان ایام قدیم میں مستمرو دائم ہے تو امام خود ماذون من جانب السلطان ہے ، اس کے ہوتے بلا مجبوری شرعی عام مسلمانوں کو بھی امام جدید قائم کرنے کا اختیار نہیں۔ یہاں مجبوری شرعی یہ کہ امام ماذون خود نہ رہے یا اُس میں مذہب وغیرہ کے فساد پیدا ہونے سے قابلیت امامت معدوم ہو جائے
مزید پڑھیں:چھوٹی بستی میں جمعہ قائم کرنا گناہ ہے یا نہیں؟
اور اس خاندان ماذون میں کوئی اور بھی صالح امامت نہ ہو، جب ان صورتوں میں سے کچھ نہ تھا اس دوسرے شخص کی امامت نہ ہوئی اُس کے پیچھے نماز عید وجمعہ محض باطل ہوں گی وہ سخت گناہوں کا خود بھی مرتکب ہوگا اور اتنے مسلمانوں کو بھی شدید معصیتوں میں مبتلا کر دے گا وہ دوسری مسجد کا جمعہ حرام ہوگا اور ظہر کا فرض سر پر رہے گا اور عیدین میں نماز عید باطل ہوگی ، اس کا پڑھنا گناہ ہو گا واجب عید سر پر رہ جائے گا تفریق جماعت تو وہاں کہی جائے کہ نماز جمعہ یا عیدین اس کے پیچھے بھی صحیح ہو جائیں، جب یہاں سرے سے ہوئی ہی نہیں تو تفریق کیسی، بلکہ ابطال نماز ہے کہ سب سے سخت تر ہے۔ اللہ تعالی توفیق تو یہ بخشے۔
مزید پڑھیں:دیہات میں جمعہ وعیدین کی جواز کی کوئی صورت ہے؟
یہ مسئلہ نہایت واجب الحفظ ہے، آج کل جہال میں یہ بلا بہت پھیلی ہوئی ہے کہ جمعہ یا نماز عید نہ ملی کسی مسجد میں ڈھائی آدمی جمع ہوئے اور ایک شخص کو امام ٹھہر اکرنماز پڑھ لی وہ نماز نہیں ہوتی اور اس کے پڑھنے کا گناہ الگ ہوتا ہے عوام کے خیال میں یہ نمازیں بھی پنجگانہ کی طرح ہیں کہ جس نے چاہا امامت کرلی حالانکہ شرعاً یہاں امام خاص اس طریق معین کا درکار ہے اُس کے بغیر یہ نمازیں ہو نہیں سکتیں۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 359