: سوال
زید امام مسجد ہے اور اس نے جھوٹ بولا اس پر ایک شخص نے ان کے پیچھے نماز پڑھنا ترک کر دی اور کسی وقتٍ کی نماز وہ شخص قبل پڑھ لیتا ہے اور مؤذن بھی وہی شخص ہیں اور تکبیر بھی کہتا ہے۔ آیا یہ صحیح کر رہا ہے؟
:جواب
سائل نے یہ بیان کیا کہ امام کے ذمے یہ جھوٹ رکھا جاتا ہے کہ اس سے پوچھا گیا کیا بجا ہے؟ کہا سوا آٹھ بجے ہیں ، اور بچے تھے سوانو ۔ یہ کوئی جھوٹ ایسا نہیں جس کے سبب اس کے پیچھے نماز چھوڑ دی جائے ، سوا نو بجے ہیں تو ضرور سوا آٹھ بھی بج چکے ۔ عالمگیری میں ہے کہ اگر کوئی دس روپیہ کو خریدی اور پوچھنے پر کہا پانچ کولی ہے تو یہ کوئی جھوٹ قابل مواخذہ نہیں۔
یونہی سوانو میں سوا آٹھ داخل داخل ہیں۔ مؤذن کہ اتنی سی بات پر ترک جماعت کرتا ہے دہرا گنہگار ہے ایک جماعت چھوڑنے کا گناہ اور دوسرا سخت گناہ یہ کہ اوروں کو اذن دے کر بلانا اور خود بازر ہنا اللہ تعالی فرماتا ہے
بَنَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِم تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتًا عِند الله ان تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ
اے ایمان والو! کیوں کہتے ہو وہ جو نہیں کرتے اللہ کو سخت نا پسند ہے یہ بات کہ وہ کہو جو نہ کرو۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 577