:سوال
بعض روایات سے پتا چلتا ہے کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے بعض لوگوں کی بعد نماز جنازہ و تدفین دوبارہ نماز جنازہ ادا فرمائی ؟
:جواب
زمانہ اقدس حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم مں تمام مسلمین کے ولی احق واقدم خود حضور پرنورصلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہیں اللہ عز و جل فرماتا ہے
النبى اولى بالمؤمنين من انفسهم
ترجمہ: نبی مسلمانوں کے ان کی جانوں سے زیادہ مالک ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں
انا اولى بالمؤمنين من انفسهم
ترجمہ: میں مسلمانوں کا ان کی جانوں سے زیادہ مالک ہوں ۔
(صحیح البخاری ، ج 1 ، ص 308 ، قدیمی کتب خانہ، کراچی)
مزید پڑھیں:نماز جنازہ کی تکرار کے ممنوع ہونے کی وجہ
تو جونماز قبل اطلاع حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ سلم اور لوگ پڑھ لیں پھر اگر حضور پرنور صلی اللہ علی علیہ وسلم اعادہ فرمائیں تو یہ وہی صورت ہے کہ نماز اول غیر ولی احق نے پڑھی ولی احق اختیار اعادہ رکھتا ہے۔
نماز جنازہ شفاعت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا ” جس مسلمان کے جنازے پر چالیس مسلمان نماز میں کھڑے ہوں اللہ تعالیٰ اس کے حق میں ان کی شفاعت قبول فرمائے ۔
(صحیح مسلم ، ج 1 ، ص 308 ، نور محمد اصح المطابع، کراچی)
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا جس میت پر سو مسلمان نماز جنازہ میں شفیع ہوں ان کی شفاعت اس کے حق میں قبول ہو
(صحیح مسلم، ج 1، میں 308، نور محمد اصح المطابع، کراچی)
مزید پڑھیں:دو بار نماز جنازہ ادا کرنا کیسا ہے؟
اور مالک شفاعت حضور شفیع یوم النشور رصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں ، اور جو کوئی شفاعت کرے وہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نیابت سے ( نائب بن کر) کرے گا ۔ شفیع المذنبین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں شفاعت مجھے عطا فرمادی گئی ہے اسے بخاری و مسلم اور نسائی نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کیا ہے۔
(صحیح البخاری ، ج 1 ص 62، قدیمی کتب خانہ، کراچی )
جو شفاعت بے اذن والا ( حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر) کوئی کرے وہ فضولی غیر کے حق میں اس کی اجازت کے بغیر تصرف کرنے والے) کا تصرف ہے، کہ اذنِ مالک پر موقوف رہے گا، مالک اگر جائز کر دے جائز ہو جائے گا اور اگر آپ ابتداء تصرف کرے تو باطل ۔ مثلاً عمر و ملک زید بے اذن زید بیع کر دے، زید خبر پاکر روا (جائز) رکھے، روا ہے اور اگر خود از سر نو عقد بیع کرے تو ظاہر ہو گا کہ عقد فضولی پر قناعت نہ کی ، اب عقد یہی عقد مالک ہوگا، نہ عقد فضولی ۔
تو صورت مذکورہ میں جس میت پر حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم خود نماز پڑھیں ، یہ اعادہ نماز نہ ہوگا، بلکہ نماز اول یہی قرار پانی چاہئے۔ بحمد اللہ تعالیٰ یہی معنی ہیں ہمارے بعض ائمہ کے فرمانے کے کہ نماز جنازہ کا فرض حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے زمانہ میں بے حضور کے پڑھے ساقط نہ ہوتا تھا یعنی حضور خود پڑھیں یا دوسروں کو اذن دیں، اور اگر بے اطلاع حضور پر نور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لوگ خود پڑھ لیں تو وہ شفاعت بے اذن مالک ہے کافی و مسقط فرض ( فرض کو ساقط کرنے والی ) نہیں۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر9، صفحہ نمبر 291 تا 294