:سوال
حنفی کا شافعی کی اقتداء کرنا کیسا ہے؟
:جواب
حقی جب دوسرے مذہب والے کی اقتداء کرے جہاں اس کی اقتداء جائز ہو کہ اگر امام کسی ایسے امر کا مرتکب ہو جو ہمارے مذہب میں ناقض طہارت یا مفسد نماز ہے جیسے آب قلیل متجنس ( تھوڑے ناپاک پانی) یا مستعمل سے طہارت یا چوتھائی سر سے کم کا مسح یا خون فصد دوریم زخم ( زخم کی پیپ ) وقے وغیر ہا نجاسات غیر سبیلین ( دونوں شرم گاہوں کے علاوہ کسی جگہ سے نکلنے والی نجاسات) پر وضو نہ کرنا یا قد درم سے زائد منی آلودہ کپڑے سے نماز پڑھنا یا صاحب ترتیب ہو کر با وصف یا دفائتہ ( فوت شدہ نماز یاد ہونے کے باوجود ) و وسعت وقت بے قضائے فائتہ نماز وقتی شروع کر دینا یا کوئی فرض ایک بار پڑھ کر پھر اسی نماز میں امام ہو جانا تو ایسی حالت میں تو حنفی کو سرے سے اُس کی اقتداء جائز ہی نہیں اور اسکے پیچھے نماز محض باطل۔
غرض جب وہ ایسے امور سے بری اور اُس کی اقتدا صحیح ہو اس وقت بھی ان باتوں میں اس کی متابعت نہ کرے جو اپنے مذہب میں یقیناً نا جائز و نا مشروع قرار پا چکی ہیں اگر متابعت کرے گا تو اُس کی نماز اس نامشروع کی مقدار کراہت پر مکروہ تحریمی یا تنزیہی ہوگی کہ پیروی مشروع میں ہے نہ غیر مشروع میں۔ اسی طرح ترک سنت میں امام کی پیروی نہیں بلکہ موجب اساءت و کراہت ہے اگر وہ چھوڑے مقتدی بجالائے جبکہ اس کی بجا آوری سے کسی واجب فعل میں امام کی متابعت نہ چھوٹے ولہذا علماء فرماتے ہیں اگر امام وقت تحریمہ رفع یدین (ہاتھ اٹھانا ) یا تسبیح رکوع و سجود یا تکبیر انتقال یا ذ کر قومہ ترک کرے تو مقتدی نہ چھوڑے۔۔ یوں ہی تکبیرات عیدین میں رفع یدین۔ اور اگر رکوع و سجود میں ایک ہی تسبیح کہہ کر سر اٹھائے تو مقتدی بھی نا چار سنت تثلیث ( تین دفعہ تسبیح پڑھنے کی سنت ) ترک کرے ورنہ قومہ و جلسہ کی متابعت میں خلل آئے گا۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 404