حدیث کا موضوع ہونا کیسے ثابت ہوتا ہے؟
:سوال
حدیث کا موضوع ہونا کیسے ثابت ہوتا ہے؟
:جواب
موضوعیت ثابت ہوتی ہے کہ اس روایت کا مضمون
(1) قرآن عظیم
(2) سنت متواترہ
(3) یا اجماعی قطعی قطعیات الدلالة
(4) یا عقل صریع
(5) یا حسن صحیح
(6) ا تاریخ یقینی کے ایسا مخالف ہو کہ احتمال تاویل تطبیق نہ رہے۔
(7) یا معنی شنیع و قبیح ہوں جن کا صدور حضور پر نور صلوات اللہ علیہ سے منقول نہ ہو، جیسے معاذ اللہ کسی فساد یا ظلم یا عبث یاسفہ( بے وقوفی) یا مدح باطل یا ذم حق پر مشتمل ہونا ۔
(8) یا ایک جماعت جس کا عدد حد تواتر کو پہنچے اور ان میں احتمال کذب یا ایک دوسرے کی تقلید کا نہ ر ہے اُس کےکذب و بطلان پر گواہی مستندا الی الحس ( جس کا تعلق جس سے ہو ) دے۔
(9) یا خبر کسی ایسے امر کی ہو کہ اگر واقع ہوتا تو اُس کی نقل و خبر مشہورو مستفیض ہو جاتی مگر اس روایت کے سوا اس کا کہیں پتا نہیں۔
(10) یا کسی حقیر فضل کی مدحت، اور اس پر وعدہ و بشارت یا صغیر امر کی مذمت اور اس پر وعید و تہدید میں ایسے لمبےچوڑے مبالغے ہوں جنہیں کلام معجز نظام نبوت سے مشابہت ندر ہے۔
یہ دس (10) صور تیں تو صریح ظہور وضوح وضع کی ہیں۔
(11) یا یوں حکم وضع کیا جاتا ہے کہ لفظ رکیک وسخیف ہوں جنہیں سمع دفع ( کرے ) اور طبع منع کرے اور ناقل مدعی ہو کہ یہ بعینہا الفاظ کریمہ حضور افصح العرب صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہیں یا وہ محل ہی نقل بالمعنی کا نہ ہو۔
(12) یا ناقل رافضی حضرات، اہلبیت کرام علی سید ہم وعلیہم الصلاۃ والسلام کے فضائل میں وہ باتیں روایت کرے جو اس کےغیر سے ثابت نہ ہوں ، جیسے حديث لحمك لحمى ودمك دمی ( تیرا گوشت میرا گوشت، تیرا خون میرا خون )۔
اقول ( میں کہتا ہوں یعنی امام اہلسنت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ) انصافا یوں ہی وہ مناقب امیر معاویہ و عمر العاص رضی اللہ تعالی عنہما کے صرف نواصب کی روایت سے آئیں کہ جس طرح روافض نے فضائل امیر المومنین واہل بیت ظاہریں واہل بیت طاہرین رضی اللہ تعالی عنہم میں قریب تین لاکھ حدیثوں کے وضع کیں۔ یونہی نواصب نے مناقب امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ میں حدیثیں گھڑیں كما ارشد اليه الامام الذاب عن السنة احمد بن حنبل رحمه الله تعالى ( جیسا کہ اس کی طرف امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی نے رہنمائی فرمائی جو سنت کا دفاع کرنے والے ہیں)۔
(13) یا قرائن حالیہ گواہی دے رہے ہوں کہ یہ روایت اس شخص نے کسی طمع سے یا غضب وغیرہما کے باعث ابھی گھر کر پیش کر دی ہے۔
(14) یا تمام کتب و تصانیف اسلامیہ میں استقرائے تام کیا جائے اور اس کا کہیں پتانہ چلے یہ صرف اجلہ حفاظ
شان کا کام تھا جس کی لیاقت صد ہا سال سے معدوم ۔
(15) یا راوی خود اقرار وضع کر دے خواہ صراحۂ خواہ ایسی بات کہے جو بمنزلہ اقرار ہو مثلا ایک شیخ سے بلا واسطہ بدعوی سماع روایت کرے، پھر اس کی تاریخ وفات وہ بتائے کہ اُس کا اس سے سننا معقول نہ ہو۔
یہ پندرہ باتیں ہیں کہ شاید اس جمع و تلخیص کے ساتھ ان سطور کے سوا نہ ملیں ۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر5، صفحہ نمبر 460

READ MORE  Fatawa Rizvia jild 06, Fatwa 699
مزید پڑھیں:کیا منکر الحدیث اور متروک الحدیث کی حدیث بھی موضوع نہیں؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top