:سوال
الحمد للہ کے بعد جو سورۃ پڑھی جائے اُس سے پہلے بھی بسم اللہ شریف پڑھنی چاہئے یا نہیں ؟ بعض لوگ کہتےہیں یہ نا جائز ہے اس لئے کہ ضم سورت ( سورت ملانا )واجب ہے اور بسم اللہ شریف پڑھنے سے ضم نہ ہو افصل (فاصلہ ) ہو گیا، یہ قول ان کا کیسا ہے؟
:جواب
ہمارے علمائے محقیقین رحمہم اللّٰہ تعالیٰ علیہم اجمعین کتب معتمدہ میں روشن تصریحیں فرمارہے ہیں کہ ابتدائے سورت پر بھی بسم اللہ شریف پڑ ھنی مطلقامستحب ومسحسن ہے خواہ نماز سریہ ہو یا جہریہ۔
اور صاف ارشاد فرماتے ہیں کہ اس کا نا جائز ہونا در کنار ہمارے ائمہ مذہب بنی رضی اللہ تعالی عنہم میں کوئی اس کی کراہت کا بھی قائل نہیں بلکہ سب ائمہ کرام بالاتفاق اسے خوب بہتر جانتے ہیں اختلاف صرف سنیت میں ہے کہ جس طرح سر فاتحہ پر بسم اللہ شریف بلا شبہ سنت ہے یونہی سر سورت پر بھی سنت ہے یا مستحب ۔ امام محمد کے نزدیک سر یہ میں سنت ہے ۔۔ اور مذہب امام نفی استنان ( سنت ہونے کی نفی ) ہے اور اس پر فتوی ۔۔ بہر حال اس کی خوبی و حسن پر ہمارے سب ائمہ کا اتفاق ہے پھر اس کے بعد زید و عمرو کو اپنی رائے لگانے اور اتفاق ائمہ کرام کے خلاف اجتہاد کرنے کی گنجائش (نہیں) ۔
مزید پڑھیں:مسجد کا محراب بالکل قبلہ رخ نہ ہو تو نماز کا حکم؟
اور وہ بات بھی کچھ ٹھکانے کی ہو جس نے چند حروف فقہ کے پڑھے یا کسی عالم کی صحبت پائی وہ خوب جانتا ہے کہ ضم سورت جو واجب ہے اس کے یہ معنی نہیں کہ خاص سورت ہی ملانی واجب ہے یہاں تک کہ بعد فاتحہ وسط سورت سے کسی رکوع کا پڑھنا نا جائز و موجب ترک واجب ٹھہرے کہ سورت بمعنی معروف کا ملانا اُس پر بھی صادق نہیں بلکہ اس سے مراد قرآن عظیم کی بعض آیات ملانا ہے کہ خواہ سورت ہو یا نہ ہو بسم اللہ شریف خود ایک آیت قرآن عظیم ہے تو اس کا ملا نا قرآن عظیم ہی کا ملانا ہوانہ کسی غیر کا، جو صاحب اتنا بھی خیال نہ فرمائیں انھیں احکام شریعت میں رائے زنی کیا مناسب ہے۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 162