فجر کی سنتوں کی قضاء کس وقت کی جائے؟
:سوال
زید کہتا ہے کہ صبح کی سنتوں کی قضا طلوع شمس سے پہلے بہتر ہے اور دلیل کے طور پر ابوداؤد، ابن ماجہ اور اور ترمذی کی روایت پیش کرتا ہے کہ ایک شخص کو حضو صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فجر کے فرضوں کے فوراً بعد سنتیں پڑھتے دیکھا تو خاموشی اختیار فرمائی اور عمر کہتا ہے طلوع شمس کے بعد بہتر ہے۔ حق کیا ہے؟
:جواب
اگر صبح کی نماز اور سنتیں بسبب خوف جماعت خواہ کسی اور وجہ سے رہ گئیں تو ان کی قضا اگر کرے تو بعد بلندی آفتاب پڑھے قبل طلوع نہ صرف خلاف اولی بلکہ ناجائز وگناہ ممنوع ہے۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم وغیر ہما صحاح وسنن و مسانید میں امیر المومنین عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ سے ہے ( نھی رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم عن الصلوة بعد الصبح حتى تطلع الشمس وبعد العصر حتى تغرب) ترجمہ: رسول اللہ صل اللہ تعالی علیہ وسلم نے طلوع سحر کے بعد طلوع آفتاب تک اور عصر کے بعد غروب آفتاب تک نماز سے منع کیا ہے۔
(صحیح البخاری، ج 1، ص 82 ، قدیمی کتب خانہ کراچی)
( مزید احادیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: علماء فرماتے ہیں اس مضمون کی حدیثیں رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے متواتر ہيں ذكره المناوي في التيسير في شرح الجامع الصغير ( اسے امام مناوی نے التیسیر فی شرح الجامع الصغیر میں ذکر کیا ہے )۔ ترندی ، ابوداؤد اور ابن ماجہ والی روایت کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ حدیث ان احادیث جلیلہ صحیحہ کے مقابل لانے کے قابل نہیں۔
اولا : اس کی سند منقطع ہے خود امام ترندی نے بعد روایت حدیث فرمایا( اسناد هذا الحديث ليس بمتصل محمد بن ابراهيم التيمي ) ترجمہ: اس حدیث کی سند متصل نہیں کیونکہ محمد بن ابراہیم التیمی نے حضرت قیں سے سماع نہیں کیا۔
(جامع الترندی، ج 1، جس 57امین کمپنی، کراچی)
ثانياً: خود سعد بن سعید پر اس کی سند میں اختلاف کیا گیا، بعض نے صحابی کو ذکر ہی نہ کیا۔
ثالثاً: عامہ رواۃ نے اسے مرسلاً روایت کیا خود انھیں سعد کے دونوں بھائی عبدربہ بن سعید و یحیی بن سعید کہ دونوں
سعد ( بن سعید ) سے اوثق واحفظ میں مرسلا روایت کرتے ۔ جامع ترندی میں ہے انما يروى هذا الحديث مرسلا ( يه حدیث مرسلا مروی ہے )۔
(جامع الترندی ، ج 1 جس 57، امین کمپنی، دہلی)
مزید پڑھیں:نوافل کی جگہ قضاۓ عمری پڑھنا
رابعا: مدار اس روایت کا سعد بن سعید پر ہے جامع ترندی میں ہے حدیث محمد بن ابرهيم لا نعرفه مثل هذا الامن حديث سعد بن سعيد ” ترجمہ: ہم محمد بن ابراہیم سے مروی اس حدیث کو سعد بن سعید کے علاوہ کسی سے نہیں جانتے۔
(جامع الترمذی ، ج 1 جس 57 ، امین کمپنی، دہلی)
سعد با وصف توثیق مقال سے خالی نہیں، ان کا حافظہ ناقص تھا، امام احمد نے انھیں ضعیف کہا، امام نسائی نے فرمایا قوی نہیں، امام ترندی نے فرمایا “تكلموا فيه من قبل حفظه ، یعنی ائمہ حدیث نے ان سعد میں ان کے حافظہ کی طرف سے کلام فرمایا۔
تہذیب التہذیب ، ج 3 ص 471، دائرۃ المعارف حیدر آباد دکن، ہند )
لا جرم تقریب میں ہے صدوق سیء الحفظ آدمی بچے ہیں حافظہ برا ہے۔
تقریب التہذیب ، ج 1 ، ص 343، دار الکتب العلمیہ، بیروت )
ان وجوہ کی نظر سے یہ حدیث واحد خود ان احادیث صحیحہ کثیرہ کے مقابل نہ ہو سکتی خصوصاً اس حالت میں کہ وہ مثبت ممانعت ( منع کو ثابت کر رہی ) ہیں اور یہ ناقل اجازت ( یہ حدیث اجازت کو نقل کر ہی ہے ) ، اور قاعدہ مسلمہ ہے کہ جب دلائل حلت و حرمت متعارض ہوں حرمت و ممانعت کو ترجیح دی جائے گی۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر8، صفحہ نمبر 148 تا 153

READ MORE  متولی مسجد کا کسی کو نماز سے منع کرنے کا کیا حکم ہے؟
مزید پڑھیں:فجر کی فوت شدہ سنتیں کس وقت پڑھنی چاہئے؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top