:سوال
:ان امام صاحب کے پیچھے نماز کا کیا حکم ہے جن کے درج ذیل معاملات ہیں
(1)
جانتے ہوئے کہ عورت عدت میں ہے اس کا نکاح پڑھا دیا۔
(۲)
مسجد کے اندر پمپ ہونے کی وجہ سے پانی کی کثرت ہے بازار اور محلہ کے آدمی اپنے گھروں کے کپڑے دھوتے ہیں پاک نا پاک چھینیں مسجد کے گھڑے لوٹے فرش مسجد پر پڑتی ہیں دوسرا آدمی کپڑے دھونے والوں کو منع کرتا ہے تو امام صاحب منع کرنے والے کو برا کہتے ہیں اور اس سے لڑنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔
(۳)
دو برس سے مولوی صاحب اس مسجد میں مقرر ہیں چار مہینے اس جگہ رہتے ہیں باقی آٹھ ماہ باہر اور شہروں میں وعظ کہتے ہیں اور اپنی اوگھائی کرتے ہیں غرض یہاں سے بھی اپنی تنخواہ سال تمام کی لیتے ہیں۔
:جواب
جس شخص کے وہ حالات و عادات واقوال وافعال ہوں وہ نرا فاسق ہی نہیں بلکہ کھلا گمراہ بددین ہے۔ عدت کے اندر نکاح نا جائز و حرام قطعی ہے جس کی حرمت پر خود عظیم ناطق، اللہ تعالی فرماتا ہے( وَالْمُطَلَّقَتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثلثتہ قروء)وہ عورتیں جو مطلقہ ہوجائیں وہ اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں۔ مسلمانوں پر فرض ہے کہ اُس کو مسجد سے معزول کریں، اسے امام بنانا گناہ ہے اور اس کے پیچھے نماز کم از کم سخت مکروہ جب اس کے فسق و بیبا کی کی یہ حالت ہے۔
تو کیا اعتبار کے بے وضو نماز پڑھا دیتا ہو یا جاڑے کے دنوں میں خواہ ویسے ہی نہانے کی کاہلی سے بے نہائے امامت کر لیتا ہو، آخر بے غسل کے نماز پڑھنا عدت میں نکاح جائز کر دینے سے زیادہ نہیں ہے۔ اور خود معاملہ نماز میں اس کی بیبا کی اور طہارت نجاست سے بے پروائی اُس بیان سے ظاہر جو سائل نے لکھے کہ ناپاک کپڑے مسجد میں دھونے والوں کو منع نہیں کرتا بلکہ منع کرنے کو برا کہتا ہے اور لڑنے پر آمادہ ہوتا ہے تو جس کی یہ حالت ہے اس کے پیچھے نماز کی اصلاً اجازت نہیں ہو سکتی۔
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر6، صفحہ نمبر 479