دوسرے شہر میں چاند نظر آگیا، کافی لوگوں نے بتایا، کیا اس کا اعتبار کر کے پہلے شہر میں عید کر سکتے ہیں؟
:سوال
ایک شہر میں چاند نظر نہ آیا اور دوسرے شہر میں چاند نظر آگیا، کافی لوگوں نے آکر بتایا، کیا اس کا اعتبار کر کے پہلے شہر میں عید کر سکتے ہیں؟
:جواب
رسول اللہ صل اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا
( صوموا لرؤيته، وافطر والرؤيته )
ترجمہ: چاند دیکھنے پر روزہ رکھو اور چاند دیکھنے پر عید کرو۔
پس ہر شہر اور اس کی رؤیت اور اس پر ابتائے عدت (30 کی گنتی پوری کرنا ہے )، مجرد اخبارات و خطوط صالح تحویل و اعتماد نہیں، نہ صرف شہرت افواہ ( کہ فلاں بلدہ میں فلاں روز چاند ہوا جیسے بعض خبریں شہر میں مشتہر ہو جاتی ہیں اور ان کا اشاعت کنندہ معلوم نہیں ) قابلِ اعتبار۔
ہاں اگر کسی شہر سے جماعات متعددہ آئیں اور ہر ایک بیان کرے کہ فلاں روز وہاں رویت ہوئی تو بیشک اس خبر مستفیض پر عمل واجب ہو گا اگر چہ ان دو بقاع میں بعد المشرقین ہو کہ مذہب معتمد اختلاف مطالع غیر معتبر ہے۔
پس ہر شہر میں اپنی رؤیت خواہ غیر شہر کی شرعاً معتبر خبر پر جو پہلی رمضان کی قرار پائے اس پر بنائے کار رکھیں اور روزہ متروک ہو جانا ثابت ہو تو بعد رمضان قضا کریں، اسی حکیم کے اعتبار سے شمار ثلثین (30) کی گنتی) کامل کر کے عید کر لیں لیکن اگر اکتیسویں شب کو با وجود صفائی مطلع چاند نظر نہ آئے اور ابتدائے صیام صرف ایک شاہد کی شہادت پر کی گئی ہو تو اس صورت میں تیس کے بعد عید حضرت امام اعظم و امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالیٰ علہیما نا روا فر ماتے ہیں کہ کذب اس شاہد واحد کا ظاہر و ہیں ہو گیا اور یہی مذہب و مرجح ۔

بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر10، صفحہ نمبر 390 تا 392

READ MORE  تار کے ذریعے چاند کی خبر پر عمل کرنے کا کیا حکم ہے؟
مزید پڑھیں:چاند دیکھ کر روزہ کھولنا کیسا؟
نوٹ: اس فتوی کو مزید تفصیل سے پڑھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top