:سوال
حدیث پاک میں ہے اذا جئت الصلوة فوجدت الناس فصل معهم وان كنت قدصليت كن لك نافلة وهذه مكتوبة ” جب تو نماز کے لئے آیا تو لوگوں کو نماز ادا کرتے پایا تو ان کے ساتھہ نماز میں شامل ہو یا اگر تو نماز پڑھ چکا تو دو نفلی ہو گی اور یہ فرضی ہو گی ۔
(سنن ابو دا ؤد،ج 1 ،ص 85، آفتاب عالم پر لیس، لاہور)
اس میں پہلی نماز جو پڑھ چکا ہے نفل ہو جائے گی یا دوسری جو ابھی امام کے ساتھ پڑھے گا ؟
: جواب
اس میں پہلے جو فرض کی نیت سے ادا کر چکا ہے وہی فرض ہو گی اور اب امام کے ساتھ نقل کی نیت سے شامل ہو جائے گا، امام اہلسنت علیہ الرحمہ نے اس پر متعدد دلائل دیئے جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں
اولا : اس وقت پڑھنے سے فرض ذمہ سے ساقط ہو گیا اب نہ وہ وقت میں عود کر سکتا ہے نہ وقت میں دو فرض ہو سکتے ہیں تو یقیناً یہ دوسری نہ ہوگی مگر نفل ، ہاں اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ برکت و ثواب جماعت میں حصہ ملے گا۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا ” فذلك له سهم جمع ”ترجمہ یہ اس کے لئے جماعت کے ثواب کا حصہ ہے۔
(سنن ابی داؤد، ج 1 ،ص 85، آفتاب عالم پر یس، لاہور )
ثانیاً : اگر تمانی فرض ہو تو طلب جماعت فرض ہو حالانکہ اس حکم کو حدیث نے مصلی (نمازی) کے آنے پر محمول فرمایا ہے كہ” اذا جئت إلى الصلاة فوجدت الناس فصل معهم وان كنت قد صليت ” ترجمہ: جب تو نماز کے لئے اور لوگوں کو نماز میں پائے تو ان کے ساتھ نماز پڑھ اگر چہ تو نماز پڑھ چکا ہو۔
(سنن ابو دا ؤ د، ج 1 ،ص 85 ، آفتاب عالم پر یس ، لاہور )
یہ نہیں فرمایا ” اذا صليت في رحلك افترض عليك ان تأتى الجماعة فتصلى معهم ” ترجمہ: جب تو نے اپنے گھر میں نماز پڑھ لی تو تجھ پر فرض ہے کہ تو جماعت کی طرف آئے اور ان کے ساتھ نماز ادا کرے۔ بلکہ حدیث میں تخیر (اختیار) کی تصریح ہے کہ جی میں آئے تو شامل ہو جاؤ ، نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا” سيكون عليكم بعدى امراء تشتغلهم اشياء عن الصلوة لوقتها حتى يذهب وقتها فصلوا الصلوة لوقتها فقال رجل يا رسول الله اصلى معهم قال نعم ان شئت” ترجمہ : عنقریب میرے بعد تم پر ایسے امراء آ ئیں گے جنہیں بعض اشیاء کی مشغولیت نماز بر وقت سے غافل رکھے گی یہاں تک کہ وقت چلا جائے گا ، تو تم نماز بر وقت ادا کرو، ایک آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! میں ان کے ساتھ نماز پڑھوں؟ فرمایا: ہاں اگر تو چاہے تو پڑھ۔
(سنن ابوداؤ د، ج 1 ،ص 62 ،آفتاب عالم پریس، لاہور )
مزید پڑھیں:وقت مستحب کے علاوہ پر جماعت کروانا
!فرض میں اختیار کیسا
ثالثاً : رسول اللہ صل اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا ” اذا صليت في اهلك ثم ادركت فصلها الا الفجر والمغرب” ترجمہ : جب تو نے اپنے اہل میں نماز ادا کر لی پھر تو نے جماعت کو پالیا تو اسے دوبارہ پڑھ سوائے فجر ومغرب کے۔
(المصف العبد الرزاق ، ج 1 ،ص 422، المکتب الاسلامی، بیروت)
فجر و مغرب کا استثناء اس بناء پر ہو سکتا ہے کہ یہ دوسری نفل ہو کہ نہ فجر میں تنفل ہے نہ نفل میں ایتار، اگر یہ فرض ہوتی تو فجر و مغرب میں ادائے فرض سے کون مانع ہے۔
رابعاً : اگر یہی مانا جائے کہ نافلہ پہلی اور مکتوبہ (فرض ) دوسری کو فرمایا تو فقیر کے ذہن میں یہاں ایک نکتہ بدیعہ ہے ظاہر ہے کہ نماز تنہا ناقص اور جماعت میں کامل ہے، جس نے فرض اکیلے پڑھ لئے پھر نادم ہو کر جماعت میں ملا تو قضیہ اصل و حکم عدل یہ ہے کہ اس کے فرض ناقص اور نفل کامل ہوئے مگر اس کی ندامت اور جماعت کی برکت نے یہ کیا کہ سر کار فضل نے اس کامل کو اس کی فہرست فرائض میں داخل فرمالیا اور ناقص کو نفل کی طرف پھیر دیا تو یہ نفل کامل فرض لکھے گئے اور وہ فرض ناقص نفل میں محسوب کی ہوئے کہ کمال فرض کا جمال فضل پائے اور یہ اس کی رحمت سے بعید نہیں جو فرماتا ہے( فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللهُ سَيَاتِهِمْ حسنت)ترجمہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے گناہوں کو نیکیوں کے ساتھ بدل دیتا ہے۔
جب اس کا کرم گناہوں کو نیکیوں سے بدل لیتا ہے نفل کو فرض میں گن لینا کیا دشوار ہے۔ اب حاصل یہ رہا کہ ہے تو پہلی ہی فرض اور دوسری نقل مگر رحمت الہی اس نقل کو فرض میں شمار فرمائے گی ، اسی طرف مشیر ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کا ارشاد جب ان سے پوچھا گیا میں ان دونوں میں کس کو اپنی نماز یعنی فرض تصور کروں؟ فرمايا” وذلك اليك انما ذلك إلى الله عز وجل يجعل ابنهما شاء ” ترجمہ: یہ کیا تیرے ہاتھ ہے، یہ تو اللہ کے اختیار میں ہے ان میں جسے چاہے (فرض ) شمار فرمائے گا۔
(موطا امام مالک ، ص 116 ، میر محمد کتب خانہ ،کراچی )
بحوالہ فتاوی رضویہ: جلد نمبر7، صفحہ نمبر 180